Maktaba Wahhabi

280 - 495
حسب ذیل ہیں: ابو بکر محمد بن الحسین القطان ،احمد بن یوسف السلمی،سلم بن سلیمان ،خزرج بن عثمان ،ابو ایوب، مولیٰ عثمان بن عفان، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہم ۔ واضح رہے کہ ابن ماجہ میں مروی حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہیں۔ جسے بطور استشہاد تو پیش کی جاسکتا ہے لیکن وہ استدلال کے قابل نہیں ہے۔اس طرح ایک روایت علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے مصنف ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصور کے حوالہ سے بھی نقل کی ہے ۔جس کے راوی سلیمان بن موسیٰ ہیں۔(درمنثور :2/128) لیکن یہ مرسل ہے، جو محدثین کے ہاں قابل حجت نہیں ہے۔بہرحال شعب الایمان کے حوالے سے پیش کردہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر کوئی کلام نہیں ہے اور محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری اترتی ہے۔ اس سوال کے دوسرے جز کے متعلق عرض ہے کہ والدہ اپنے معذور بچے یاکسی کو خدمت گزاری کے صلہ میں کچھ دے سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی والد کی وفات کے بعد دعویٰ کر تا ہے کہ مجھے والد نے یہ دیا تھا تو اس کے لئے گواہ یا تحریر کی ضرورت ہے۔ جبکہ مدعیہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔اس بنا پر ہم اسے نصیحت کرتے ہیں کہ دنیا کا مال ومتاع دنیا میں رہ جائے گا۔ اس کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کیا جائے۔ حقوق العباد کا معاملہ بڑی نزاکت کا حامل ہے۔ اس کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ سوال۔ایک شخص فوت ہوگیا، اس کے ورثاء میں سے ایک بیٹا اور چھ بیٹیاں ہیں، بعض رشتہ دار صرف لڑکے کو ہی اس کی وراثت کا حقدار سمجھتے ہیں۔اور متروکہ جائیداد لڑکے کے نام منتقل کرانا چاہتے ہیں کیا ایسا کرناشرعاً جائز ہے۔السائل: مسعود الرحمٰن جانباز مانسہرہ ۔ جواب۔کسی وارث کو محروم کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی مانع ہو تو الگ بات ہے۔ تقسیم جائیداد کاطریق کار خود اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ ہے۔اس میں کسی طرح بھی ترمیم یا اضافہ نہیں ہوسکتا۔وراثت سے محرومی کے اسباب قتل یا ارتداد وغیرہ ہیں جو صورت مسئولہ میں نہیں پائے جاتے۔لہذا جائیداد سے کسی کو بلاوجہ محروم نہیں کیا جاسکتا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''آدمیوں کے لئے حصہ ہے جو چھوڑا ہے والدین اور رشتہ داروں نے اور عورتوں کے لئے بھی حصہ ہےجوچھوڑا ہے والدین اور رشتہ داروں نے ،جائیداد تھوڑی ہویا زیادہ۔'' اس آیت کے پیش نظر کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی وارث کو بلاوجہ جائیداد سے محروم کرے۔اس کی تقسیم یوں ہوگی کہ مرنے والے کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو اصحاب الفروض(اگر ہیں) کودینے کے بعد آٹھ حصوں میں تقسیم کیاجائے ،دو حصے لڑکے کو اور ایک ایک حصہ چھ لڑکیوں کو دیا جائے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ (النساء۴/۱۱) "اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولادوں کے متعلق حکم دیتے ہیں کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔'' لہذا کسی جائز وارث کو بلاوجہ جائیداد سے محروم نہ کیاجائے۔اور حقدار کو مذکورہ تقسیم کے مطابق حصے دیئے جائیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)
Flag Counter