Maktaba Wahhabi

281 - 495
سوال۔علی اکبر بذریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہ ہمارے والد گرامی فوت ہوگئے ہیں۔پسماندگان میں ہم دو بھائی ،چار بہنیں اور ہماری والدہ ہیں۔والد کی جائیداد کی منقولہ اور غیر منقولہ کیسے تقسیم ہوگی؟ جواب۔تجہیز وتکفین پر اٹھنے والے اخراجات،قرض کی ادائیگی اور وصیت کے اجراء کے بعدباقی جائیداد اس طرح تقسیم ہوگی کہ ان کی بیوی کو ایک بٹہ آٹھ حصہ دیا جائے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کوآٹھواں حصہ ملے گا۔''(4/النساء:12) بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی8/7 اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہربیٹے کو بیٹی سے دوگنا حصہ ملے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔''(4/النساء:11) سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کے 64 حصے کرلیے جائیں۔ان میں 8/1یعنی آٹھ حصے مرحوم کی بیوی کو، پھر 14،14 حصے فی لڑکا اور 7،7 حصے فی لڑکی کو دیئے جائیں ۔میت(8/64)= بیوی (8)۔بیٹا(14) بیٹا(14) بیٹی(7)۔بیٹی(7) بیٹی (7)۔بیٹی(7)=64 سوال۔لاہور سے محمد اقبال خریدار ی نمبر 3094 لکھتے ہیں کہ ہمارے والد فوت ہوچکے ہیں جوتھوڑی سی زرعی اراضی چھوڑ گئے تھے۔پسماندگان میں سے ہماری والدہ ،ہم دو بھائی اور دو بہنیں زندہ ہیں۔تقسیم جائیداد کیسے ہوگی،نیز ہماری ایک بہن والد مرحو م کی زندگی میں فوت ہوگئی تھی۔کیا اسے بھی ہمارے والد کی جائیداد سے حصہ ملے گا یا نہیں؟ جواب۔ قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق صورت مسئولہ میں بیوہ کو آٹھواں حصہ اور باقی جائیداد بہن بھائی اس طرح تقسیم کریں کہ بھائی کو ایک بہن سے دو گنا حصہ ملے۔سہولت کے پیش نظر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے 48 حصے کرلیے جائیں۔ ان میں سے آٹھواں یعنی چھ حصے مرحوم کی بیوہ کو ملیں گے اور باقی 42 حصوں میں سے ہر ایک بھائی کو 14،14 اور ہر ایک بہن کو 7،7 حصے دیئے جائیں۔ میت 48= بیوہ 6 ۔لڑکا 14۔ لڑکا 14۔لڑکی7۔لڑکی 7۔ کسی کی وفات کے وقت جو شرعی ورثاء زندہ موجود ہوں انہیں ترکہ سے حصہ ملتا ہے۔بشرطیکہ وہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔چونکہ مرحوم کی ایک بیٹی اس کی زندگی میں فوت ہوچکی تھی۔ لہذا مرحوم کی جائیداد سے اس فوت شدہ بیٹی کو کچھ نہیں ملےگا اور نہ ہی اس کی اولاد یا اس کے داماد کا ا س میں کوئی حق ہے۔جائیداد میں صرف وہ ورثاء شریک ہوتے ہیں جو مورث کی وفات کے وقت زندہ موجود ہوں۔ سوال۔چیچہ وطنی سے محمد غفران لکھتے ہیں کہ ایک عورت فوت ہوئی ہے۔پسماندگان میں دو لڑکے اور چار لڑکیاں موجود ہیں۔ اس عورت نے کچھ رقم اپنے داماد کے پاس رکھی تھی۔اب ایک لڑکا اوردو لڑکیاں رضا مند ہیں کہ اس رقم کو کسی مسجد یا مدرسہ میں صرف کردیا جائے۔جبکہ دوسرے لڑکے اور لڑکیوں کو اس رقم کا علم نہیں ہے۔اس رقم کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ نیز ایک لڑکے کے پاس اس سے بھی زیادہ باپ کی رقم موجود ہے اور باپ فوت ہوچکا ہے۔لڑکا باپ کی رقم کسی کو دینے کے لئے تیار نہیں ، مذکورہ وارثوں کے علاوہ ایک پدری
Flag Counter