Maktaba Wahhabi

37 - 495
کے پیش نظر یا نا دا نستہ طور پر کسی کو کا فر کہا کہنے وا لا کا فر نہیں ہو گا ۔‘‘(کتا ب الادب، باب: 74) اس عنوا ن کے تحت امام المحدثین نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش کیا ہے جب انہو ں نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا تھا کہ یہ منافق ہے اور ان کے پا س یہ کہنے کی معقول وجہ تھی کہ یہ کا فر وں سے دوستی رکھے ہو ئے ہیں اور ہما رے جنگی را ز اہل مکہ کو بتا تے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی کو دور فر مایا، لیکن مذکو رہ با لا حدیث کے پیش نظر آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں فر ما ئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " کہ عمر ! تجھے معلو م ہو نا چاہیے کہ اللہ تعا لیٰ نے اہل بدر کو عر ش پر سے دیکھا ہے اور انہیں مغفر ت کا پروا نہ عنا یت فرما یا ہے۔‘‘ ( صحیح بخا ر ی : کتا ب الاد ب ، با ب 74) اسی طرح نا دا نستہ طو ر پر کلمہ کفر کہنے سے انسا ن کا فر نہیں ہو تا، چنانچہ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ دو را ن سفر اپنے با پ کی قسم اٹھا ئی اور غیر اللہ کی قسم اٹھا نا کفر یا شر ک ہے۔ لیکن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تجد ید ایمان کے لئے نہیں کہا بلکہ ا ن کی لا علمی کو دور کر تے ہو ئے فرمایا :’’ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں با پ دادا کی قسم اٹھا نے کے لئے منع فر ما یا ہے ۔(صحیح بخا ری : الا دب 6108) امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ کے تر جمۃ البا ب سے تکفیر کے متعلق دواصول سا منے آتے ہیں : (1) جہا لت اور لا علمی کی وجہ سے کو ئی کفر یہ کا م یا با ت سر زد ہو جا ئے تو اسے معذ ور خیا ل کیا جا ئے اور اسے کا فر کہنے کی بجائے اس کی جہا لت دور کی جا ئے اگر تمام حجت کے بعد بھی اصرار کرتا ہے تو اس کے بظاہر کلمہ گو ہو نے کا کو ئی فا ئدہ نہیں بلکہ وہ اصرار اور عنا د کی وجہ سے خا ر ج از ملت ہو گا ۔ (2) اگر کو ئی کفریہ کا م یا با ت کا مر تکب اپنے پا س کو ئی تا و یل یا معقول وجہ رکھتا ہے تو بھی اسے معذور تصور کیاجا ئے لیکن تا و یل کے لیے ضروری ہے کہ الفا ظ میں عر بی قا عدہ کے مطا بق اس تا ویل کی کو ئی گنجائش ہو اور علمی طور پر اس عمل یا با ت کی تو جیہہ ممکن ہو ،اگر کسی کو اس کی تا ویل یا معقول وجہ سے اتفاق نہ ہو تو اسے کا فر کہنے کے بجا ئے با ت کے قا ئل یا کا م کے فا عل پر اس تا ویل یا معقو ل وجہ کا بوداپن وا ضح کر دیا جا ئے ۔امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کر دہ اصو لو ں کے علا و ہ چند مز ید ضوابط بھی ملا حظہ فر ما ئیں : (3) اگر کو ئی انسا ن مجبورا کلمہ کفر یا شر کیہ عمل کرتا ہے تو اسے بھی معذو ر سمجھنا چا ہیے ، ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے : جو شخص ایما ن لا نے کے بعد پھر اللہ کے سا تھ کفر کر ے سوا ئے اس شخص کے جسے مجبو ر کیا گیا ہو در آنحا لیکہ اس کا دل ایما ن پر مطمئن ہو، ہا ں جس شخص نے کفر کے لئے اپنا سینہ کھو ل دیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب نا ز ل ہو گا اور ان کے لئے بڑا عذا ب ہے ۔(16/النحل : 106) اس آیت کر یمہ میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ جب کسی مسلما ن پر ان گنت مظا لم تو ڑ ے جا رہے ہوں اور ناقابل برا دشت اذیتیں دے کر کلمہ کفر پر مجبو ر کیا جا رہا ہو تو محض جا ن بچا نے کے لئے کلمہ کفر کہہ دینے کی رخصت ہے بشر طیکہ دل عقیدہ کفر سے محفو ظ ہو، ایسے حا لا ت میں اللہ کے ہا ں کو ئی موا خذا نہیں ہو گا، البتہ مقا م عز یمت یہی ہے کہ خوا ہ آدمی کا جسم تکا بو ٹی کر ڈا لا جا ئے، بہر حا ل وہ کلمہ حق کا ہی اعلان کر تا رہے۔ حضرت خبا ب بن ا رت اور حضرت بلال رضی اللہ عنہما اس مقا م عزیمت پر فا ئز تھے، البتہ حضرت عما ر بن یا سر رضی اللہ عنہ نے رخصت پر عمل کیا ۔
Flag Counter