Maktaba Wahhabi

167 - 647
مثل کے ہوجانے سے وقت عصر کا ہوجائے گا۔حدیث یہ ہے: ’’عن بشیر بن سلام قال:دخلت أنا و محمد بن علي علیٰ جابر بن عبداللّٰه الأنصاري رضی اللّٰه عنہ فقلنا:أخبرنا عن صلاۃ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم،وذاک زمن الحجاج بن یوسف،قال:خرج رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فصلیٰ الظھر حین زالت الشمس،وکان الفییٔ قدر الشراک،ثم صلیٰ العصر حین کان الفییٔ قدر الشراک وظل الرجل‘‘[1] الخ [حضرت بشیر بن سلام فرماتے ہیں کہ میں اور محمد بن علی حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کیا (یہ حجاج بن یوسف کا زمانہ تھا) آپ نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے،ظہر کی نماز اس وقت پڑھی،جب کہ سورج ڈھل چکا تھا اور سایہ تسمہ کے برابر تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر اس وقت ادا فرمائی،جب سایہ تسمہ اور آدمی کے سائے کے برابر تھا] یہ حدیث نسائی میں صحیح سند سے مروی ہے اور سندھی محدث نے اس پر یہ حاشیہ لکھا ہے: ’’قدر الشراک بکسر الشین أحد سیور النعل التي علی وجھھا،وظاھر ھذہ الروایۃ أن المراد الفییٔ الأصلي لا الزائد بعد الزوال،ولذلک استثنیٰ في وقت العصر‘‘[2] [شراک،شین کی زیر سے جوتی کے اوپر کی جانب جو تسمے ہوتے ہیں،ان میں سے ہر ایک کو شراک کہتے ہیں۔اس روایت سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہاں اصل سایہ مراد ہے نہ کہ زاید،جو زوال کے بعد ہوتا ہے،اس لیے عصر کے وقت سے اس کو مستثنیٰ کر دیا ہے] مجمع البحار میں لفظ ’’شراک‘‘ میں اس حدیثِ شراک کی شرح یوں کی ہے: ’’صلیٰ الظھر حین کان الفییٔ بقدر الشراک ھو أحد سیور النعل تکون علی وجھھا،وقدرہ ھنا لیس علی وجہ التحدید،لکن زوال الشمس لا یبین إلا بأقل ما یری من الظل،وکان حینئذ بمکۃ ھذا القدر،والظل یختلف باختلاف الأزمنۃ والأمکنۃ‘‘ [ظہر اس وقت پڑھی،جب سایہ ایک شراک کے برابر تھا۔یہ جوتی کا ایک تسمہ ہوتا ہے،جو سامنے کی طرف ہوتا ہے۔یہاں اس سے تحدید مراد نہیں،لیکن سورج کا زوال اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتا،جب تک کم از کم سایہ نمودار نہ ہو،مکہ میں اس وقت اتنا ہی اندازہ تھا۔سایہ جگہ اور موسم کی تبدیلی سے بدلتا رہتا ہے] یہ پیمایش موافق حدیث ایک مثل کے ہے۔یہی مذہب راجح ہے اور مذہب ثانی جو راجح نہیں،لیکن بالکل بے اصل بھی نہیں،جیسا کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مضمون ہے:
Flag Counter