Maktaba Wahhabi

543 - 647
وتکشف بعضھا،إظھارا للجمال ونحوہ،وقیل:تلبس ثوبا رقیقاً،یصف لون بدنھا‘‘[1] [اﷲ کی نعمت کا لباس تو ان پر ہوگا،لیکن شکر سے ننگی ہوں گی یا ان کے بدن کا کچھ حصہ تو چھپا ہوا ہوگا اور کچھ ننگا ہو گا یا یہ کہ وہ باریک کپڑے پہنیں گی،جس سے بدن نظر آئے گا] پھر فرماتے ہیں: ’’ساقہ المصنف للاستدلال علیٰ کراھۃ لبس المرأۃ ما یحکي بدنھا،وھو أحد التفاسیر کما تقدم،والأخبار بأن من فعل ذلک من أھل النار،وأنہ لا یجد ریح الجنۃ مع أن ریحھا یوجد من مسیرۃ خمس مائۃ عام،وعید شدید یدل علیٰ تحریم ما اشتمل علیہ الحدیث من صفات ھذین الصنفین‘‘[2] انتھیٰ،واللّٰه أعلم [ مصنف نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عورت کو باریک کپڑے پہننا مکروہ ہے اور ایسی عورتیں دوزخی ہیں،وہ جنت کی خوشبو نہ پائیں گی،حالاں کہ اس کی خوشبو پانچ سو سالہ راہ سے محسوس ہونے لگے گی۔اس حدیث میں سخت وعید ہے ان عورتوں کے لیے،جو ان صفات کی حامل ہوں گی] حررہ:عبد الرحیم،عفي عنہ۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق فی الواقع عورتوں کو باریک کپڑا پہننا،جس سے بدن کی رنگت و جھلک ظاہر ہو،ممنوع ہے،اگرچہ وہ ایسے گھروں میں رہتی ہوں،جن میں بجز ان کے خاوند کے کسی مرد غیر محرم کا گزر نہ ہو،کیونکہ ان کے لیے ایسے باریک کپڑے پہننے کی عام ممانعت آئی ہے اور کسی حالت میں ان کو ایسے باریک کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہے۔سنن ابی داود میں دحیہ بن خلیفہ سے روایت ہے: ’’قال:أُتي رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بقباطي،فأعطاني منھا قبطیۃ،فقال:اصدعھا صدعین،فاقطع أحدھما قمیصا،وأعط الآخر امرأتک تختمر بہ،فلما أدبر،قال:ومر امرأتک تجعل تحتہ ثوبا لا یصفھا۔قال المنذري:في إسنادہ عبد اللّٰه بن لھیعۃ،ولا یحتج بحدیثہ،وقد تابع ابن لھیعۃ علیٰ روایۃ ھذہ أبو العباس یحییٰ بن أیوب المصري،وفیہ مقال،وقد احتج بہ مسلم،واستشھد بہ البخاري‘‘[3]
Flag Counter