طور پر مدون ہوگئیں اور فقہی ابواب پر مرتب ومحفوظ ہوگئیں اور اس کے ساتھ ہی سلسلہ اسناد بھی ختم ہوگیا تو محدثین نے بھی اصول حدیث کو مرتب فرماکر اس پر مہرثبت فرمادی اور اب قیامت تک آنے والے جتنے بھی طالب حدیث محدث مجتہد اور مفکر ہیں وہ انہیں اصول کے تابع ہیں اور رہیں گے کیونکہ محدثین نے انسانی بساط کے مطابق تما م صلاحیتوں کو بروء کار لاکر حفاظت حدیث کے لئے مکمل جدجہد کی یہاں تک کہ اگر ایک حدیث کے اندر ایک راوی کے لفظ ’’و‘‘کو زیادہ روایت کیا ہے اور دوسرے راوی نے لفظ ’’و‘‘کو چھوڑا ہے تو محدثین نے اس کیلئے بھی مکمل صراحت کردی اسی طرح اگر ایک راوی کا نام اس کا باپ دوسرے راوی کے نام اس کے باپ کا نام ایک ہی ہے یہاں تک کہ نسبت وغیرہ ایک ہی ہے تو بھی محدثین نے اس کی مکمل جانچ پڑتال کرکے بالکل واضح کردیا مثلا،ابو جعفر محمد بن جریر الطبری مشہور مورخ ومفسر امام ہیں اسی نام ولدیت اور کنیت سے ایک اور طبری صاحب بھی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ امام طبری کے دادا کا نام یزید اور دوسرے کے دادا کا نام رستم ہے امام ابن جریر نامور محدث ومفسر ہیں اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص یہ کہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ امام الہدیٰ نہیں تھے وہ بدعتی ہے اور اس قابل ہے کہ اسے قتل کردیا جائے(لسان)اور دوسرا رافضی ومعتزلی ہے،اتفاق کی بات ہے کہ دونوں باہم معاصر ہیں اور دونوں کی وفات بھی ۳۱۰ھ میں ہوئی البتہ امام طبری ۲۲۴ھ میں پیدا ہوئے اور دوسرا رافضی۲۲۶ھ میں پیدا ہوا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے(میزان الاعتدال)میں حافظ ابن حجر نے(لسان المیزان)میں دونوں کا علیحدہ علیحدہ تذکرہ کیا ہے اور دونوں نے مابین فرق نمایا طور پر بیان کیا۔کحالہ نے بھی ۰معجم المؤلفین جلد ۹،ص۱۴۶،۱۴۷)میں دونوں کو علیحد ہ طور پر ذکر کیاہے۔بلکہ معروف رافضی مورخ عبداللہ المامقانی نے(تتقیح المقال جلد ۲،ص،۹۰،۹۱)کے باب محمد میں بھی دونوں کو علیحدہ علیحدہ علیحدہ ذکر کیا ہے۔ |