Maktaba Wahhabi

54 - 124
ترجمہ: ’’ میں کہتا ہوں کہ(اس موقف کی تائید میں)سعید بن منصور نے اپنی سنن میں زید بن ثابت سے روایت کی ہے،کہ قرأت ایک پیروی کی جانے والی سنت ہے لہٰذا غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ قرأت عامہ کے علاوہ تمام قرأتیں غلط ہیں ان کی کم علمی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ایک دو قول پڑھنے سے مسئلہ کا نتیجہ نہیں نکلتا۔آگے غامدی صاحب کہتے ہیں ’’ قرآن مجید پر اگر اس کے نظم کی روشنی میں تدبر کیا جائے تو اس کے داخلی شواہد بھی پوری قطعیت کے ساتھ یہی فیصلہ سناتے ہیں(اصول ومبادی میزان ۲۹) غامدی صاحب بہت ہی عجیب وغریب بات کررہے ہیں اگر قرآن کے داخلی شواہد سے صرف اسی قرأت عامہ کی معرفت ہوتی ہے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ جب غامدی صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس قرأت عامہ کے علاوہ بھی قرأت تھی تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانے میں دوسرا قرآن تھا ؟یا یہ داخلی شواہد صحابہ کوجو عربی لغت کے ماہرین تھے معلوم نہ ہوسکے ؟ لیکن آج ۱۴ سو سال بعد ایک غیر عربی شخص نے معلوم کرلئے ؟ غامدی صاحب کا ان قرأتوں پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ مختلف قرأت سے معنی بھی مختلف ہوجاتے ہیں یہ بھی غامدی صاحب کے اغلاط میں سے ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی لفظ کو مختلف پڑھنے سے اسکے معنی مختلف یا تبدیل نہیں ہوتے بلکہ معنی ایک ہی رہتے ہیں(فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۳۴) اسی طرح امام بیہقی نے سنن کبریٰ میں ابن سیرین کا قول نقل کیا ہے(دیکھئے بیہقی سنن کبریٰ جلد ۲ صفحہ ۳۹) مثال کے طور پر قرآن مجید میں ہے’’ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ‘‘ اس کو ’’مَلِک یوم
Flag Counter