Maktaba Wahhabi

62 - 124
دوسری بات یہ ہے اس بات کا تعلق ان کی رائے کے ساتھ ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ساتھ اور اس بات کی وضاحت ہم کرچکے ہیں کہ حفظ احادیث میں آپ کا حافظہ بہت تیز تھا اور حدیث کو اسی طرح بیان کرتے جس طرح حدیث ہوتی اور یہ بات کوئی دور نہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قرآن کے حافظ ہوتے ہیں کسی بھی آیت کے بارے میں ان سے پوچھا جائے تو فورا بتادیتے ہیں جبکہ دوسری طرف کوئی چیز رکھ کر بھول جاتے ہیں ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے وہ چیز کہاں رکھی ہے۔ تیسری بات غامدی صاحب ابن شھاب رحمہ اللہ کو یہ بات کہہ کر طعن کررہے ہیں کہ اگر وہ کسی چیز کا جواب دیتے تو تین طرح کا ہوتا اور جن میں سے ہر ایک دوسرے کا نقیض ہوتا اور انہیں اس بات کا احساس بھی نہ ہوتا کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں اور اب کیا کہہ رہے ہیں۔ جبکہ یہ طعن خود غامدی صاحب کی ذات پر انہی کی زبان سے ہورہا ہے کیونکہ غامدی صاحب کی خود کی ہر ایک بات دوسرے نقیض کی ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں کہ وہ کیا کہہ چکے ہیں اور اب کیا کہہ رہے ہیں۔مثال کے طور پر ایک جگہ غامدی صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ بات کس طرح کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کے الفاظ کی دلالت اس کے مفھوم پر قطعی ہیں ؟ امام رازی نے اس سوال کی تقریر پر اپنی تفسیر اسی طرح کی ہے ’’دلالۃ الالفاظ علی معانیھا ظنیۃ‘‘الفاظ کی دلالت ان کے مفہوم پر ظنی ہے(اصول ومبادی میزان ۲۵) جبکہ دوسری جگہ فرمارہے ہیں : ان کے بارے میں ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال اگر پیدا ہوجائے کہ ان کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی نہیں ہے تو ان میں سے ہر چیز بالکل بے معنی ہوکر رہ جائے گی(اصول ومبادی میزان،۳۳،۳۴) ایک جگہ قرآن کے بارے میں کہہ رہے ہیں ’’ ہر شخص پابند ہے کہ اس پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹہرائے ‘‘(ایضاً،۲۳)
Flag Counter