Maktaba Wahhabi

64 - 124
کی دعوت اس کے پیش نظر جن مقامات سے شروع ہوتی ہے وہ یہ ہے(۱)دین فطرت(۲)سنت ابراھیمی۳۰)نبیوں کے صحائف۔ پہلی چیز کا تعلق ایمان واخلاق کے بنیادی حقائق سے ہے اور اس کے ایک بڑے حصے کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف ومنکر سے تعبیر کرتا ہے یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی ہے اور انہیں برا سمجھتی ہے قرآن ان کی کوئی جامع ومانع فہرست پیش نہیں کرتا بلکہ اس حقیقت کو مان کر کہ انسان ابتداہی سے معروف ومنکر دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکرکو چھوڑ دے’’ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ‘‘(التوبہ ۷۱،۷۹)اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں یہ باہم دیگر معروف کی نصیحت کرتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔(اصول ومبادی میزان ص۴۸،۴۹) جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام ایک فطری دین ہے۔لیکن کیا چیز فطری ہے اور کیا غیر فطری اس کی رہنمائی انسان کی اپنی فطرت انفرادی طور پر نہیں کرسکتی۔بلکہ اس کی صحیح رہنمائی دین اسلام(قرآن وسنت)کرتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ معروف ومنکر وہ چیز ہے جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے اور وہ جنہیں فطرت بر ا سمجھتی ہے لیکن معروف ومنکر کی پہچان کروانا یہ شریعت کا کام ہے اور اگر ہم معروف ومنکر کی تعریف پڑھیں تو اور واضح ہوجاتی ہے۔ ابن اثیر فرماتے ہیں:معروف ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کو شریعت نے پسند کیا(یعنی اس چیز
Flag Counter