Maktaba Wahhabi

82 - 124
ان کے پیش نظریہ دوباتیں اس متن میں بھی لازماًدیکھنی چاہئیں۔ ایک یہ کہ اس میں کوئی چیز قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو دوسری یہ علم وعقل کے مسلمات کے خلاف نہ ہو۔(اصول ومبادی۔۶۹) جواب:۔ ایک طرف تو غامدی صاحب سند کے بارے میں محدثین کے معیار کو قطعی کہہ رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی(ایضاً)اور پھر بیان فرمارہے ہیں کہ ہر انسانی کام کی طرح حدیث کی روایت میں بھی فطری خلا اس کے باوجود باقی رہ گئے ہیں۔ غامدی صاحب بات سمجھانے کے بجائے اسکو الجھارہے ہیں۔متن ہو یا سند دونوں کا معیار محدثین نے ایسا بنایا ہے کہ جس میں کوئی کمی اور زیادتی نہیں کی جاسکتی اور اسی معیار کو سامنے رکھ کر ہر حدیث کو جانچا جاسکتا ہے مزید تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ اور حدیث کا قرآن وسنت اورعلم وعقل کے خلاف ہونے سے متعلق خود غامدی صاحب نے گفتگو کی ہے تو کبھی صحیح حدیث چاہے خبر واحد ہو یا متواتر قرآن وسنت اور علم وعقل کے مسلمات کے خلاف ہوتی ہی نہیں اگر کوئی حدیث قرآن وسنت اور علم وعقل کے خلاف ہوتی ہے تو اسکی وضاحت محدثین نے کی ہے اور اس سے متعلق جو علت متن وسند میں ہوتی ہے اسکی وضاحت کی ہے لیکن اسکا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ کسی بھی صحیح حدیث کو قرآن وسنت پر پیش کیا جائے یا علم وعقل پر پیش کیا جائے اگر مطابقت ہو تو مان لیا جائے ورنہ رد کردیا جائے مزید تفصیلات انشاء اللہ آگے ائیں گی۔
Flag Counter