Maktaba Wahhabi

85 - 124
اگر غامدی صاحب ’’الکفایہ‘‘ کا صحیح طور پر مطالعہ کرتے تو خطیب بغدادی کے بیان کردہ اصول کو ٹھیک طریقے سے سمجھ سکتے تھے لیکن انہوں نے حسب عادت اپنے مطلب کی بات اخذ کرنے کی کوشش میں خطیب بغدادی کے دوسرے اصولوں کو نظر انداز کردیا ہم مزید وضاحت کے لئے الکفایہ کے حوالے سے اسی عبارت کو نقل کردیتے ہیں جسے خطیب بغدادی نے یحیی بن محمد کے حوالے سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں’’یقول لایکتب الخبر عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یرویہ ثقہ عن ثقۃ حتیٰ یتناھی الخبر الی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم بھٰذہ الصفۃ ولا یکون فیھم رجل مجھول ولارجل مجروح فاذاثبت الخبر عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم بھٰذہ الصفۃ وجب قبولہ والعمل بہ وترک مخالفۃ‘‘(الکفایہ فی علم الروایہ،ص۳۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کوئی خبر جب تک لکھی یا مانی نہ جائے جب تک ثقہ راوی ثقہ سے روایت کرے اور سند اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے نہ ان میں کوئی راوی مجھول اور نہ کوئی مجروح ہو پھر اگر اسی طریقے سے حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے تو اسکو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا اور اسکی مخالفت کو ترک کرنا واجب ہوجاتا ہے(چاہے وہ خبر واحد ہو)اس عبارت سے ہماری بات کی تائید ہوتی ہے کہ جب کوئی صحیح حدیث آجائے تو اس پر عمل کرنا اور اسکو ماننا واجب ہوجاتا ہے چاہے وہ خبر واحد ہی کہ ذریعے کیوں نہ ہو اور وہ قرآن وسنت اور علم وعقل کے خلاف نہیں کیونکہ جس خبر پر عمل کرنا اور اسکا ماننا ضروری ہو وہ کبھی قرآن وسنت اور علم وعقل کے خلاف نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب خطیب بغدادی ہر صحیح حدیث چاہے وہ خبر واحد ہو کے متعلق یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے تو اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس خبر واحد کووہ قرآن وسنت کے خلاف اور علم وعقل کے خلاف ناقابل قبول کہہ رہے ہیں وہ اس خبر واحد کے بارے میں کہہ رہے ہیں جس کی صحت درست نہ ہو تو ان کے کہنے کا اصل مطلب یہ ہوا۔کہ جس خبر کی صحت ثابت نہ ہو تو وہ قرآن وسنت اور علم وعقل کے خلاف ہوتی ہے۔
Flag Counter