Maktaba Wahhabi

30 - 75
[لَیْلَۃً] ہے ، یعنی ابو داؤد کی حدیث کے اصل الفاظ یوں ہیں: (( عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ جَمَعَ النَّاسَ عَلٰی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ فَکَانَ یُصَلِّیْ لَھُمْ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً وَلَا یَقْنُتُ بِھِمْ الِاَّ فِي النِّصْفِ الْبَاقِيْ، فَاِذَا کَانَتِ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ تَخَلَّفَ فَصَلَّیٰ فِيْ بَیْتِہٖ فَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ اَبَقَ أُبَيٌّ )) ’’ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر اکٹھے کیا ، وہ لوگوں کو بیس راتیں تراویح پڑھاتے تھے اور نصفِ ثانی کے سوا دعاء ِ قنوت نہیں کرتے تھے۔جب آخری عشرہ آتا تو جماعت کرانا چھوڑ دیتے اور اپنے گھر میں نماز پڑھتے اور لوگ کہتے کہ ابی ّ رضی اللہ عنہ بھاگ گئے ہیں۔‘‘ یہ ہیں حدیث کے اصل الفاظ جن میں بیس راتوں کا ذکر ہے نہ کہ بیس رکعتوں کا اور ظاہر ہے کہ [لَیْلَۃً]کی بجائے[رَکْعَۃً]کا لفظ لا نا اور اسے بیس تراویح کے ثبوت کے لیٔے مستدل بنانا ایک اہم دینی کتاب میں شرمناک تحریف ہے۔ اگر سوال پیدا ہو کہ جب [لَیْلَۃً]کی بجائے[رَکْعَۃً]بعض مطبوعہ نسخوں میں موجود ہے تو پھر اسے تحریف کیوں کہا جائے ؟ تو جواباً عرض ہے کہ جن نسخوں میں لفظ [رَکْعَۃً] موجود ہے ، اُن کی حقیقت بعد میں بیان کی جائے گی، اُس سے پہلے وہ شواہد دیکھ لیٔے جائیں جو تحریف پر دلالت کرتے ہیں اور وہ کئی امور ہیں: 1 پہلی شہادت : ۱۳۱۸ ؁ ھ تک ابو داؤد کے جتنے نسخے ہندوستان میں طبع ہوئے ان سب میں [لَیْلَۃً]کا لفظ ہی مطبوع ہے ، کہیں بھی [رَکْعَۃً]والے نسخے کا اشارہ نہیں اور اسی طرح بیرون ِہند آج تک جہاں بھی یہ کتاب طبع ہوئی ان تمام مطبوعہ نسخوں میں لفظ[لَیْلَۃً]ہی مرقوم ہے کہیں بھی
Flag Counter