Maktaba Wahhabi

34 - 75
5 پانچویں شہادت : مولانا خلیل احمدؒ صاحب حنفی سہارن پوری نے اپنی مشہور کتاب بذل المجھود فی حلّ ابی داؤد میں اس حدیث کو جب بغرض ِشرح لکھا ہے تو لفظ [ لَیْلَۃً ] ہی کو ذکر کیا ہے اور اِسی پر اپنی شرح کی بنیاد رکھی ہے،ان کی عبارت یہ ہے : (( فَکَانَ أُبَيُّ یُصَلِّيْ لَہُمْ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً وَلَایَقْنُتُ بِھِمْ اِلَّا فِي النِّصِفِ الْبَاقِيْ))(اَلظَّاہِرُ أَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْبَاقِيْ الْعَشْرُ الْأَوْسَطُ کَأَنَّہٗ لَا یَقْنُتُ اِلَّا فِي الْعَشَرَۃِ الثَّانِیَۃِ وَأَمَّا الْعَشَـرَۃِ الثَّالِثَۃِ فَیَتَخَلَّفُ فِیْہَا فِيْ بَیْتِہٖ وَیَتَفَرَّدُ عَنِ النَّاسِ فَاِذَا کَانَتِ الْعَشْرُالْأَوَاخِرُ تَخَلَّفَ أُبَيٌّ عَنِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّی فِيْ بَیْتِہٖ وَکَانُوْا أَيْ النَّاسُ یَقُوْلُوْنَ اَبَقَ أَيْ فَرَّ فَہَرَبَ أُبَيٌّ ) ’’حضرت ابی ّ رضی اللہ عنہ لوگوں کو بیس راتیں نماز پڑھاتے اور دعاء ِقنوت صرف نصف ِ اخیر میں ہی کرتے تھے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نصف ِ اخیر [یا نصف ِ باقی ] سے مراد عشرئہ وُسطیٰ ہے گویا وہ صرف عشرئہ وُسطیٰ میں دعاء ِ قنوت کرتے تھے ، رہا عشرئہ اخیرہ تو اس میں وہ جماعت کرانا ہی چھوڑ جاتے تھے اور لوگوں سے الگ تھلگ اپنے گھر میں اکیلے نماز پڑھتے تھے ، جب عشرئہ اخیرہ آتا تو وہ مسجد سے الگ ہوجاتے اور اپنے گھر میں تراویح پڑھتے تو لوگ کہتے کہ ابی ّ رضی اللہ عنہ بھاگ گئے ہیں۔‘‘ اس عبارت سے واضح ہے کہ مولانا نے دوسرے علماء کے خلاف نصف ِ باقی سے بیس راتوں کا آخری نصف یعنی درمیانہ عشرہ مراد لیا ہے حالانکہ باقی علماء نے بالخصوص شوافع نے النصف الباقی سے رمضان کا آخری نصف مراد لیا ہے اور مولانا کا یہ مراد لینا تب صحیح ہوسکتا ہے کہ جب لفظ [عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً] کا ہو ، اگر لفظ[ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً]کا ہو تو پھر اسکا نصف ِباقی تو آخری دس رکعتیں ہوں گی نہ کہ رمضان کا درمیانہ عشرہ اور غالباً مولانا نے یہ توجیہہ اس لیٔے کی ہے کہ شوافع کا مذہب ہے کہ قنوت الوتر رمضان کے نصف ِ آخر کے ساتھ خاص ہے ، اور وہ لوگ اس حدیث سے
Flag Counter