Maktaba Wahhabi

28 - 138
ترجمہ: ’’ خالد بن اسلم کہتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ آیت (الَّذينَ يَكنِزونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ )اس وقت کی ہے جب زکوۃ کا حکم نہیں اترا تھا۔ پھر جب زکوۃ کا حکم اترا تو اللہ نے زکوۃ سے اموال کا پاک کردیا۔‘‘ زکوۃ اگرچھ 2؁ھ میں فرض ہوچکی تھی تاہم یہ حکم انفرادی طور پر زکوۃ ادا کرنے سے متعلق تھا۔ سورہ توبہ کے اس حصہ کا (جس میں یہ آیہ اکتناز شامل ہے) کا زمانہ نزول اواخر ذی قعدہ 9؁ھ ہے ۔ اس سے دو تین ماہ پیشتر یعنی جنگ تبوک (رجب 9؁ھ) سے واپسی کے بعد زکوۃ سے متعلق وہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو بحیثیت سربراہ مملکت اسلامی زکوۃ کو اجتماعی طور پر وصول کرنے کا حکم بدیں الفاظ دیا گیا ہے: (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا)(التوبہ:103) ترجمہ:’’ اے پیغمبر! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (صحابہ رضی اللہ عنہم) کے اموال سے صدقہ (فرضی یعنی زکوۃ) وصول کرکے(ان کے اموال کو) پاک اور (ان کے نفوس کا) تزکیہ کیجیے۔‘‘ ان تصریحات سے واضح ہے کہ اگر انسان زکوۃ ادا کردیا کرے اور مال حلا ذرائع سے کمایا گیا ہو تو فاضلہ دولت اپنے پاس بچے رہنے میں چنداں مضائقہ نہیں۔ 2۔دوسری دلیل: احکام میراث: احکام میراث مدنی دور کے آخری حصہ میں نازل ہوئے بالخصوص کلالہ کی
Flag Counter