Maktaba Wahhabi

45 - 138
متعلق ہیں۔ انہی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب دولت خرچ کی دی تھی جس سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تجارت کیا کرتی تھیں۔ 2:   اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دولت اس وقت آئی جب اسلام میں فتوحات شروع ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے خود غنائم اور فے کے اموال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ مقرر فرمادیا۔ عام مسلمان بھی اس دور میں کسی حد تک خوشحال ہوگئے تھے۔ انہی ایام میں دوسرے مسلمانوں کی دیکھا دیکھی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کو بھی آسودگی اور دنیا کی زیب و زینت کا خیال آ گیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیورات وغیرہ کا مطالبہ کردیا۔ وقت کے لحاظ سے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کا یہ مطالبہ کچھ بے جا نہ تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قناعت پسند طبیعت پر ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کا یہ مطالبہ اتنا گراں گزرا کہ آپ اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن سے کنارہ کش ہو کر مسجد کے بالا خانے میں آکر مقیم ہو گئے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کو طلاق دے دی ہے۔ صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ در اقدس پر حاضر ہوئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی افواہ کے متعلق استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح صورت حال سے مطلع فرمادیا۔ اس بات پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنے خوش ہوئے تو بے ساختہ منہ سے اللہ اکبر نکل گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قناعت پسندی کی بات تو خود ان سے سن چکے تھے۔ پھر جب اس سامان پر نظر پڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ کے قیام کے لیے
Flag Counter