Maktaba Wahhabi

40 - 138
2:﴿ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ ﴾ ترجمہ:" ہم نے (کافروں کی کئی) جماعتوں کو فوائد دنیوی سے فائدہ دیا ہے تو تم ان کی طرف آنکھیں بھی نہ اٹھاؤ۔"(الحجر:88) ان آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں سامان زیست کی افراط جو فاضلہ دولت ہی کا دوسرا نام ہے، کوئی پسندیدہ نہیں ہے۔ لہذا یہ فاضلہ دولت اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کیونکرپسندیدہ ہو سکتی ہے۔ 5: ضرورت سے زائد مال:  انفاق فی سبیل اللہ کے بکثرت اور تاکیدی احکام کے بعد صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وہ اپنے مال میں سے کیا کچھ خرچ کریں تو اس کا جواب اللہ تعالی نے یوں دیا کہ : ﴿يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ (219:2) ترجمہ:۔ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم اے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو۔" اگرچہ ضرورت سے زائد مال کو فی سبیل اللہ خرچ کردینے کا حکم وجوب کا درجہ نہیں رکھتا تاہم استحباب اور فضیلت اسی میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات 1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو بحرین سے جزیہ لانے کے لئے بھیجا۔ جب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ جزیہ کا مال لے کر
Flag Counter