Maktaba Wahhabi

11 - 69
تحقیقی نظر: موصوف کی تحریر کس قدر سطحی الفاظ پر مشتمل ہے یہ بات کسی بھی اہل ذوق، تعلیم یافتہ آدمی پر مخفی نہیں۔ موصوف کا اس آیت سے استدلال ہے کہ ہر عورت اپنے ایمان میں کامل مکمل ہے جناب کی سینہ زوری اور تحکم ہے اور تفسیر بالرائے ہے۔ جس کی شدید ترین مذمت کی گئی ہے جس نے قرآن میں کوئی بات اپنی طرف سے کہی وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ……۔ (مشکوٰة کتاب العلم) موصوف بھی تفسیر بالرائے کی مذمت ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ: اس میں کسی بھی حوالے سے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات اخذ نہیں کی گئی، بلکہ اپنی عقل کے پیمانے کے ذریعے سے قرآن کے الفاظ کو پرکھا گیااور سمجھا گیا۔ اس تفسیر کے ذریعے سے قرآنی الفاظ کو اپنے مطلب کا جامہ پہنا دیا گیا، اور اجماع امت ہو گیا کہ یہ تفسیر بھی قابل قبول ہے۔ یہیں سے بگاڑ شروع ہوا، اس لئے کہ قرآنی الفاظ کا وہ مفہوم لیاگیا جو مطلوب خدا نہ تھا۔ (صفحہ نمبر۱۰) واقعی موصوف کا سیدہ آسیہ زوجہ فرعون اور مریم بنت عمران کے واقعے سے تمام عورتوں کو کامل و اکمل ایمان کی ڈگری و سند دینا مطلوب خدا نہیں۔ اور شاید موصوف کے بگڑنے کی یہی وجہ ہے۔ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کامل و اکمل صرف چار ہی عورتوں کو قرار دیا گیا ہے۔ ۱…آسیہ امرأة فرعون۔ ۲…مریم بنت عمران۔ ۳…خدیجہ بنت خویلد۔ ۴…سیدہ عائشہ کی فضیلت اس طرح جس طرح شدید کی تمام انواع کے طعاموں پر۔ نیز ا س آیت میں کانت من القانتین وارد ہوا ہے کانت من القانتات نہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرد عورت پر فوقیت رکھتا ہے ۔ (دیکھئے فتح القدیر از شوکانی)۔ موصوف کا بلادلیل ہی قصہ ایوب علیہ السلام پراعتراض کرنا اور روایت کا انکار کرنا بلکہ اسے جھوٹی روایت قرار دینا، انتہا درجہ کی جسارت، قرآن سے لاعلمی ہے ۔ جبکہ سورة صٓ میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ: وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہ وَ لااَا تَحْنَث یعنی تیلیوں کا ایک گٹھہ (جھاڑو) لے کر اسے مار لو اور قسم نہ توڑو۔ کیا اب بھی مذکورہ روایت بلا دلیل ہی جھوٹی قرار دی جائے گی؟
Flag Counter