Maktaba Wahhabi

34 - 69
اسی طرح صحیح بخاری ہی میں باب ہے لاتقضی الحائض الصلاة (حائضہ (چھوڑی ہوئی) نماز کی قضا نہیں دیگی۔) اور اس کے تحت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک عورت (معاذہ) سے مناقشہ ذکر ہوا ہے۔ جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (چھوڑی ہوئی ) نماز کی قضا کا حکم ہی نہیں دیا۔ صحیح بخاری ہی میں یہ حدیث کتاب الحیض میں موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ آنے کا حکم دیا اور انہیں نماز کی (مخصوص)جگہ سے علیحدہ رہنے کا حکم بھی دیا۔ یہ بھی دلیل ہے کہ ان ایام میں عورتیں نماز ادا نہیں کریں گی۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ نماز سے قبل طہارت (وضوٴ اور ضرورت ہو تو غسل کرنا) فرض ہے بلاطہارت نماز نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے جنبی (مردوعورت) کو نماز سے قبل غسل (طہارت) کا حکم دیاہے۔ (دیکھئے سورہ مائدہ آیت نمبر۶) اسی طرح حیض کے ایام کے اختتام پر بھی عورتوں کو غسل (طہارت) کا حکم دیاہے۔ (دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲۲۲) ان دونوں آیتوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حالت جنابت دور کرنے کے لئے طہارت اختیار کرنا حکم الٰہی ہے اور اسی طرح ایام حیض کے اختتام پر عورتوں کا غسل کرنا حکم الٰہی کی تعمیل ہے۔ جنابت کا لفظ وسیع معنی و مفہوم کا حامل ہے۔ ایام حیض سے گذرنے والی عورت بھی جنابت کی حالت ہی میں ہوتی ہے۔ کیا اس صورت میں قبل از غسل نماز ہو جائیگی؟ نہیں کیونکہ سورہ مائدہ میں نماز کیلئے یہ شرط بیان ہوئی ہے کہ جنابت کو دور کرو۔ فافھم۔ یہ بھی یاد رہے کہ ماہانہ ایام کی تکمیل پر ہی عورت کا غسل کرنا باعث طہارت ہوگا اس سے قبل وہ سارادن غسل کرتی رہے تو پھر بھی معنوی طور پر پاک نہیں ہوگی۔ لہٰذا یہ مانے بغیر چارہ ہی نہیں کہ قرآن و سنت ہی کی منشاء ہے کہ نماز حالت طہارت میں ہو اور حالت جنابت و حیض طہارت کی حالت نہیں۔لہٰذا یہ حکم کہ عورتیں ہر حال میں نماز پڑھیں،قرآن و سنت کے منافی ہے اور اس حکم کے قائل پر کفر تک فتویٰ لگایا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس تفصیلی بحث سے یہ معلوم ہو گیا کہ ماہانہ ایام میں عورتوں کا نماز و روزہ سے اجتناب کرنا عین
Flag Counter