Maktaba Wahhabi

489 - 822
’’عمر رضی اللہ عنہ رائے واجتہاد پر عمل کرنے میں بہت جری تھے اگرچہ وہ آراء واجتہادات بعض نصوص شرعیہ اور معمول بہ طور طریقہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں، اس سے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی حکم جدید اسلامی معاشرہ کے تقاضوں کے موافق ہوجائے۔‘‘ اور پھر ڈاکٹر موصوف نے ایک لفظ یا مجلس میں تین طلاقوں کے تین شمار کرنے کی فاروقی کارروائی کو بطور مثال ذکر کیا ہے۔ [1] لیکن صحیح اور حق بات یہ ہے کہ آپ کا یہ اقدام نصوص قطعیہ کے بالکل مخالف نہ تھا بلکہ چند معتبر شرعی دلائل وامثال کی بنیادوں پر آپ نے شرعی نص کے سمجھنے میں اجتہاد کیا تھا، مثلاً: ۱: امام مالک نے اشہب سے، انہوں نے قاسم بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ ان سے یحییٰ بن سعید نے اور ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابن مسیب نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قبیلۂ اسلم کے ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس سے چند صحابہ نے کہا: تمہیں اسے لوٹانے کا اختیار ہے۔ چنانچہ اس کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میرے شوہر نے ایک ہی کلمہ میں تین طلاقیں دے دی ہیں، (اب میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: (( قَدْ بَنْتِ مِنْہُ وَلَا مِیْرَاثَ بَیْنَکُمَا۔)) [2] ’’تم اس سے جدا ہوگئی، تم دونوں کے درمیان کوئی میراث نہیں۔‘‘ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ میں دی جانے والی تین طلاقوں کو تین شمار کیا۔ ۲: امام نسائی نے اپنی سند سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سخت غصہ ہوئے اور فرمایا: (( اَیَلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاَنَا بَیْنَ اَظْہُرِکُمْ۔)) ’’کیا اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کیا جائے گا، حالانکہ میں تمہارے درمیان (ابھی موجود) ہوں۔‘‘ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: ’’اے اللہ کے رسول کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟‘‘ [3]
Flag Counter