اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی نے ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس کو ڈانٹا۔ پس آپ کی ناراضی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ طلاقیں واقع ہوگئی تھیں، کیونکہ وہاں بیان اور وضاحت کی ضرورت تھی، اگر وہ واقع نہ ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ضرور بیان کرتے اور اصول فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ جس مقام ووقت پر بیان ووضاحت کی ضرورت ہو اسے بلا کسی مجبوری کے وہاں سے مؤخر کرنا درست نہیں ہے۔ [1] ۳: نافع بن عمیر بن عبدیزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی سہیمیہ کو طلاق بتہ دے دی اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم میں نے اس سے صرف ایک طلاق کی نیت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَاللّٰہِ مَا اَرَدْتَّ اِلَّا وَاحِدَۃً؟)) ’’اللہ کی قسم! کیا یقینا تم نے ایک ہی کی نیت کی تھی؟‘‘ رکانہ نے جواب دیا: ’’قسم اللہ کی، میں نے ایک ہی کی نیت کی تھی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی کو ان کے پاس واپس کر دیا۔ اور رکانہ نے پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اپنی بیوی کو دوسری طلاق اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تیسری طلاق دی۔ [2] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رکانہ نے اپنی بیوی کو ’’طلاق بتہ‘‘ دے دی اور کہا کہ میری نیت ایک طلاق دینے کی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بات پر قسم لی کہ کیا واقعتاتم نے ایک ہی کی نیت کی تھی؟ اور جب انہوں نے قسم کھا لی تو آپ نے ان کی بیوی کو ان کے پاس واپس کردیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلفیہ بیان لینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ’’طلاق بتہ‘‘ سے انہوں نے تینوں طلاقوں کی نیت کی ہوتی تو وہ واقع ہوجاتیں، ورنہ نیت پر حلفیہ بیان لینے کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ بہرحال مذکورہ دلائل وامثال کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے طلاق سے متعلق مذکورہ اقدام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں کیا تھا، |
Book Name | سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد، محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ، خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ، پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 823 |
Introduction |