Maktaba Wahhabi

121 - 131
ہی ہیں۔ جن کا نامِ نامی اور جن کی شکل و شباہت تم اپنے ہاں توریت میں لکھی دیکھتے ہو۔ میں توشہادت دیتاہوں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ میں اِن پر ایمان لاتا ہوں۔ اِن کو سچا مانتا ہوں اورانھیں (رسول اللہ کے طور پر) پہچانتا ہوں۔‘‘ اِس پر یہود نے مجھ سے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ پھر وہ مجھے برا بھلاکہنے لگے۔ یوں میں نے قومِ یہود کے رُو برو اپنے اوراپنے اہلِ خانہ کے قبولِ اسلام کا اظہار کر دیا۔[1] حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بڑے عالم و فاضل، نہایت زیرک، سمجھ دار اور جہاندیدہ بزرگ تھے۔ یزید بن عمیرہ رحمہ اللہ جوصحابی رسول حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ اُنھوں نے بتایا: ’’معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے مجھ کو یہ تلقین فرمائی کہ (کتاب وسنت) کا علم چار حضرات سے حاصل کرنا: عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی، اور عُوَیمر (ابودرداء( رضی اللہ عنہم ۔‘‘ [2] حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فتح بیت المقدس اور فتح جابیہ کے معرکوں میں بھی شرکت کی۔ انھوں نے 43ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد ِخلافت تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے 25روایات مروی ہیں۔[3] ابتدا میں جو آیت مبارکہ درج کی گئی ہے وہ اہل کتاب کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ نبی آخر الزمان کا نام نامی، آپ کی شکل و شباہت اور آپ کے حالات زندگی، اگلی آسمانی کتابوں میں بڑی وضاحت سے بیان کیے گئے تھے۔ اہلِ کتاب ان معلومات کو پڑھتے اور انھیں اچھی طرح سمجھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اہل کتاب
Flag Counter