Maktaba Wahhabi

61 - 131
تھے۔رمضان المبارک میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ تہجد کی اذان دیتے اور حضرت ابنِ امّ مکتوم رضی اللہ عنہ فجر کی اذان دیتے۔ اِس سلسلے کی ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ’’بلال رات کو اذان دیتے ہیں، اِس لیے کھاؤ اور پیو تاآنکہ ابنِ امِّ مکتوم اذان دیں۔‘‘ ابنِ امّ مکتوم نابینا آدمی تھے۔ وہ اُسی وقت اذان دیتے تھے جب اُن سے کہا جاتا تھا کہ بھئی صبح ہو گئی۔ صبح ہو گئی۔[1] حضورنبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوات کے لیے تشریف لے جاتے تو حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کرتے۔ آپ غزوۂ قرقرۃ الکدر کے لیے بنو سلیم اور غطفان کی طرف روانہ ہوئے تو آپ نے حضرت ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا۔ وہ مسلمانوں کو جمعہ کی نماز بھی پڑھاتے اور منبر نبوی کے دائیں جانب کھڑے ہو کر خطبۂ جمعہ بھی ارشاد فرماتے تھے۔ غزوۂ احد، غزوۂ حمراء اسد، غزوۂ خندق، غزوۂ بنی قریظہ، غزوۂ بنی لحیان، غزوۂ غابہ، غزوۂ ذی قرد اور حدیبیہ کے موقع پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنھی کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا تھا۔[2] امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ قول کتبِ فقہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ غزوات کے موقع پر حضرت ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کو نمازیں پڑھاتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔ حضرت ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ شب زندہ دار عابد تھے۔ دن میں اکثر روزہ رکھتے تھے۔ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی:
Flag Counter