شہروں سے دور جنگلوں کا باسی ہو تو اہل علم نے اس کے کفرکا حکم نہیں لگایا اور اسے نماز کے وجوب کی پہچان کرائی جائے گی اور اس کے دلائل اس کے سامنے اچھی طرح واضح کیے جائیں گے پھر اگر وہ اس کے بعد بھی نماز کا انکارکرتا ہے تو کافر ہو جائے گا۔‘‘
معلوم ہوا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جو بات لکھی ہے اسلام سے ہی ماخوذ ہے امام ابن تیمیہ نے اس کے دلائل مجموع الفتاوی 406/11،413 وغیرہ میں بیان کیے ہیں۔
اور دوسری شرط: مختارہونا بیان کی ہے جب کوئی شخص کلمہ کفر کہے یا فعل کفرکامرتکب ہو جائے تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ کلمہ کفرکہنے پر قدرت رکھنے والا صاحب اختیار ہے یا مجبور و بے اختیار کیونکہ عجز و اکراہ کی صورت میں اس پرکافر ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔اختیار شرط تکفیر ہے اور جبروا اکراہ مانع تکفیر۔ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
(مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ )(النحل: 106)
’’جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان لوگوں پر اللہ کا بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘
تیسری شرط امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ بیان کی ہے اس نے عمداً جان بوجھ کر کوئی کفریہ قول یا فعل سر انجام دیا ہو لیکن اگر اس سے خطا وہ قول یا فعل سرزد ہو گیا تو کافر ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے۔ کافر ہونے کے لیے عمداً اور قصداً کرنا لازمی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا )(الاحزاب: 5)
’’اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی اور لیکن جو تمھارے دلوں نے ارادے سے کیا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وأنی أقرر أن اللّٰہ قد غفر لہٰذا الأم خطأہا وذلک یعم الخطا فی المسائل الخیریۃ القولیہ والمسائل العملیہ ومازال السلف یتنازعون فی کثیر من ہذہ
|