دور دراز جنگلی علاقے میں رہنے کی وجہ سے کہہ دے شراب اور سود حلال ہے یا کوئی کلام سن کر انکار کر دے اور وہ یہ اعتقاد نہیں رکھتا کہ وہ بات قرآن یا احادیث رسول میں ہے جیسا کہ بعض اسلاف اتنی دیر تک کئی چیزوں کا انکار دیتے ہیں جب تک وہ ان کے نزدیک ثابت ہو جائیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں ہیں۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض اشیاء جیسے اللہ کی رؤیت وغیرہ میں شک کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا مقام پر یہ بات واضح کر دی کہ بسا اوقات نئے نئے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے بعض لوگ اسلام کے احکام سے واقف نہیں ہوتے۔ بعض لوگ ایسے خطوں میں رہتے ہیں جہاں پر جہالت عام ہوتی ہے جیسے جنگلوں اور دور دراز دیہاتوں میں بسنے والے لوگ یا بعض افراد کسی بات کا انکار صرف اس لیے کر دیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات قرآن و حدیث میں نہیں ہے تو ایسے افراد پر حجت قائم ہونے اور ان کی جہالت کا ازالہ کرنے اور ان کے حق میں شروط تکفیر پوری ہونے اور موانعات تکفیر کی نفی ہونے کے بغیر کافر قرار دینے کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا، لہٰذا زمان و مکان کی نوعیت اور اہل علم کی قلت وغیرہ کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قیامت حجت کی بات بھی مختلف پہلو رکھتی ہے، زمان، مکان اور اشخاص کے لحاظ سے مختلف نوعتیں ہو سکتی ہیں اس لیے کوئی یکساں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ [1]
اس میں ابن القیم رحمہ اللہ نے ایک ذریں اصول بتایا کہ ضروری نہیں کہ ایک دلیل اور حجت ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لیے مفید ہوگی بلکہ اس کا تعین حالات کے اعتبار سے کیا جائے گا۔ جیسے ایک جگہ جہالت ہے اور علم کے روشناس کرانے والے بھی موجود نہیں ہیں۔ یہاں حجت کی نوعیت اور ہوگی اور ایک جگہ علمی جماعت موجود ہے اور ہر قسم کی سہولت موجود ہے تو دونوں کی نوعیت میں فرق ہوگا۔
|