Maktaba Wahhabi

63 - 296
اور نماز کی ادائیگی کا حکم دیا جائے گا اور اسے تعذیر لگائی جائے گی یہاں تک کہ وہ نماز ادا کرنے لگ جائے اور صحیح بات یہ ہے کہ وہ ہرگز کافر نہیں ہے۔ اس لیے کہ کفر جحود و انکار کا نام ہے جیسا کہ بحث گزر چکی ہے اور وہ ہرگز انکار نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خمس صلوات افترضہن اللّٰہ سبحانہ علی العباد فمن جاء بہن لم یضیع منہن شیئا، کان لہ عند اللّٰہ عہد أن یغفر لہ، و من لم یأت بہن، فلیس لہ عند اللّلہ عہد؛ إن شاء غفر لہ، و إن شاء عذبہ۔)) ’’فہذا ینص علی أن ترک الصلاۃ لیس بکفر، و أنہ مما دون الشرک الذي قال اللّٰہ تعالی فیہ (إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا )(النسائ: 48)‘‘ [1] ’’پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں جو کوئی انہیں ادا کرے گا ان میں کچھ بھی ضائع نہیں کرے گا اس کے لیے اللہ کے ہاں عہد ہے کہ وہ اسے بخش دے گا اور جس نے ان کی ادائیگی نہ کی تو اس کے لیے اللہ پر کوئی عہد نہیں اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘ یہ اس بات پر نص ہے کہ نماز کا ترک ہرگز کفر نہیں ہے اور وہ اس شرک سے چھوٹا جرم ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے۔‘‘ امام قرطبی نے جو حدیث ’’خمس صلوات …‘‘ بیان کی ہے یہ حدیث صحیح ہے۔[2] اسی طرح قاضی عیاض نے بھی ’’إکمال المعلم بفوائد مسلم‘‘ میں اہل علم کا یہ اختلاف بیان کیا ہے۔[3] مزید بحث مطولات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا جن کے ہاں تارک صلاۃ کافر ہے ان کے نزدیک یہ کفر اکبر ہے اور جن کے نزدیک کافر نہیں ہے ان کے نزدیک کفر اصغر ہے۔
Flag Counter