راوی کے اندر کسی قسم کی کوئی بدعت پائی جاتی ہے اور اس کی بیان کردہ روایت اس کی بدعت کی تائید کرتی ہے تو بھی روایت ضعیف ہوگی اور اگر راوی فسق وفجور میں مبتلا ہے تو بھی اس کی بیان کردہ روایت پر کلام کیا جائے گا اور اگر یہ تمام چیزیں اس کے اندر نہ پائی گئیں تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ جس شیخ سے روایت کررہا ہے کہ آیا اس راوی نے شیخ کا زمانہ پایا ہے یا نہیں اور اگر پایا ہے تو اس بات کی تحقیق کی جائے گی کہ شیخ سے سماع ثابت ہے یا نہیں ا ور اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ راوی جس سے روایت کررہا ہے اس شیخ کی تاریخ وفات کیا ہے اور راوی کی تاریخ ولادت کیا ہے کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ راوی جس شیخ سے روایت کرتا ہے وہ راوی کی پیدائش سے پانچ یا دس سال قبل مر چکا ہوتا ہے اس صورت میں بھی سند میں انقطاع کی وجہ سے روایت ضعیف ہوجاتی ہے مثلا،عبداللہ بن عبدالجبار بن وائل بن حجراپنے والد وائل بن حجر سے روایت کرتے ہیں(جامع ترمذی کتاب الحدود باب ماجاء فی المرأۃ اذااستکرھت علی الزنیٰ)حالانکہ عبداللہ بن عبدالجباربن وائل بن حجر کا سماع اپنے باپ سے ثابت نہیں اس لئے کہ وہ اپنے والد صاحب کی وفات کے ایک مہینے بعد پیدا ہوئے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا جائے گاکہ راوی مدلس تو نہیں اگر مدلس ہے تویہ دیکھاجائے گاصیغہ تحدیث(حدثنا،اخبرنا)کے الفاظ روایت کررہا ہے یا ایسے الفاظ سے جن سے سماع کا وھم ہوتا ہو(عن قال ذکر)وغیرہ جیسے الفاظ سے روایت کررہا ہے اگر تحدیث کی صراحت کررہا ہے تو مزید آگے کے فنون پر پرکھا جائے گا اور اگر(عن قال ذکر)جیسے موھوم سماع الفاظ نقل کررہا ہے تو روایت ضعیف ہوجائے گی۔بالفرض راوی ان تمام فنون سے گزرجاتا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ آیا اس کے استاد(امام جعفر صادق سے جو الفاظ یہ راوی نقل کررہا ہے آیا امام جعفر صادق کے دیگر تلامذہ ان الفاظوں میں اس راوی کی موافقت کررہے ہیں یا راوی کی مخالفت اگر موافقت کررہے ہیں تو مزید فنون کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اگر مخالفت ہے تو حدیث شاذ ضعیف ہوکر سندی اعتبار سے گر جائے گی اور بالآخر شروع کے فنون میں ہی ضعیف ثابت ہوجائے گی اسی طرح سند |