Maktaba Wahhabi

119 - 124
روایت بالمعنیٰ کرتے وقت احتمال خطاء موجود رہتا ہے کہ وہ مطلق روایت کو مقید اور مقید کو مطلق بیان کرے۔جس سے حدیث کے مفہوم پر بڑا فرق پڑ سکتا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ راوی حدیث کا فقیہ ہونا ضروری ہے تاکہ تحمل حدیث سے اداء حدیث تک جو ایک بڑا خطاء کا احتمال ہے وہ ختم ہوجائے اس بات کی طرف شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے۔ تحمل حدیث سے ادائے حدیث تک راوی کا فقیہ ہونے کی شرط سب سے پہلے جن لوگوں نے لگائی ہے وہ احناف ہیں اس کا پس منظر یہ ہے کہ فقہ حنفی کے اکثر وبیشتر مسائل صحیح احادیث کے بالکل خلاف ہیں اس وجہ سے احناف نے پہلے تو توڑ جوڑ کر صریح اور صحیح احادیث کو اپنے مسلک کے موافق ڈھالنے کی کوشش کی اور جب اس سے بھی کام نہیں چلا تو کچھ ایسے اصول مرتب کیے جن اصول سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی عظمت پر چوٹ پڑتی نظر آتی ہے اور محدثین رحمہ اللہ کے قرآن اور حدیث سے استنباط کیے ہوئے اصولوں کی نفی ہوتی ہے جیسے بیع المصراۃ(یعنی ایک شخص بکری خرید تا ہے اور تین دن اپنے پاس رکھتا ہے اور اس کا دودھ وغیرہ استعمال کرتا ہے اب اگر وہ بکری واپس کرنا چاہے تو اس بارے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ مشتری با ئع کو ایک صاع کھجور دے کیونکہ اس نے بکری کا دودھ وغیرہ استعمال کیا ہے)کا مسئلہ فقہ حنفیہ کے اصولوں کے خلاف ہے ان کا کہنا ہے کہ کہ یہ حدیث قیاس کے خلاف ہے ہونا یہ چاہیے تھا کہ دودھ کے بدلے دودھ دیا جائے مگر حدیث کے اندر کھجور دینے کا ذکر ہے۔اگر ہم اس حدیث کو صحیح تسلیم کرکے قبول کریں گے تو قیاس کا دروازہ بند ہوجائے گا لہٰذا صریح اور صحیح حدیث کو رد کرنے کے لیے ایک عجیب وغریب اصول گھڑا کہ روایت حدیث میں مرکزی راوی کا فقیہ ہونا ضروری ہے اسی اصول کی رو سے مجتہد مطلق فقیہ امت امام ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ قرار دے کر ان کی روایت کو چھوڑ دیا گیا ہے۔اسی طرح دورے حاضر کے نام نہاد محقق ودانشورمسٹر جاوید احمد غامدی نے اس اصول کی مزید وضاحت یہ کی ہے کہ روایت حدیث میں ہر طبقے کے راوی کے لیے فقیہ ہونا ضروری ہے یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ مسٹر غامدی نے احناف کے چباکر تھوکے ہوئے چنوں کو مزید چبانے کی کوشش کی ہے۔
Flag Counter