Maktaba Wahhabi

120 - 124
اب ہم اس اصول کی کہ کیا واقعی روایت حدیث میں محدثین کے جو پانچ شرائط ہیں ان میں راوی کی فقاہت ضروری ہے یا نہیں۔ وہ پانچ شروط مندرجہ ذیل ہیں۔’’ ماالتصل سندہ بنقل العدل تام الضبط عن مثلہ الیٰ منتھاہ من غیر شذوذولاعلۃ ‘‘ محدثین کرام نے راوی کے لیے جو پہلی شرط لگائی ہیں وہ ہے۔اس کا عادل ہونا۔حافظ ابن حجر عدل کی وضاحت کرتے ہوے رقمطراز ہیں من لہ ملکۃ تحملہ علی ملازمۃ التقوی والمرؤۃ والمراد بالتقوی : اجتناب الاعمال السیئۃ من شرک اوفسق اوبدعۃ۔ عادل سے مراد وہ شخص ہے جسے وہ قوت راسخہ حاصل ہو جو اسے تقویٰ اور مرو ء ت پر آمادہ کرے۔او رتقویٰ سے مراد شرک،فسق اور بدعت جیسے برے اعمال سے اجتناب ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الکنت میں عدالت کی شرط کو واضح کرتے ہوئے لکھا : ’’ان اشتراط العدالۃ یستدعی صدق الراوی وعدم غفلۃ وعدم تساھلۃ عند التحمل والادائ۔‘‘ عدالت کی شرط راوی کی صداقت اور تحمل واداء حدیث کے وقت عدم غفلت اور عدم تساہل کا تقاضا کرتی ہے۔ قارئین کرام۔محدثین نے صحت حدیث پرعدالت کی شرط لگاکر غیر مسلم اور مشرک کی روایت سے احتراز کیا ہے اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ راوی حدیث چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو اس کو دین اسلام کی مکمل معلومات کے ساتھ ساتھ اس کے بنیادی اصولوں کو بھی جانتا ہو تاکہ وہ اعمال سیئہ اور فسق اور فجور سے اجتناب کرسکے اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ
Flag Counter