Maktaba Wahhabi

74 - 124
جواب:۔ غامدی صاحب اگر یہ اصول وضع کرنے سے پہلے قرآن کریم کا مطالعہ کرلیتے تو شاید سنت کی صحیح تعریف سمجھ میں آجاتی۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ‘‘(سورہ احزاب آیت ۲۱) ترجمہ:یقینا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونے(موجود)ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کی توقع رکھتا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں ’’اسوہ ‘‘کے معنی سے متعلق گفتگوکرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ الاسوۃ القدوۃوالاسوۃ مایتأسی بہ ای یتعزی بہ فیقتدی بہ فی جمیع افعال ویتعزی بہ فی جمیع احوال(تفسیر القرطبی جلد ۷صفحہ ۱۱۵) امام قرطبی کی اس بات کا خلاصہ یہ ہے،اسوہ یہ ہے کہ تمام افعال واحوال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی جائے۔یہ آیت اس بات کی وضاحت کررہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال وافعال سنت ہیں جہاں تک بات رہی بخاری ومسلم کی اس حدیث کی جو غامدی صاحب نے اپنے موقف کو ثابت کرنے لئے پیش کی ہے اس میں اگر صحیح طور پر غور کیا جائے تو بات عیاں ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’میں بھی ایک انسان ہی ہوں جب میں تمہارے دین کے متعلق کوئی حکم دوں تو اسے لے لو اور جب میں اپنی رائے سے کچھ کہوں تو میری حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ میں ایک انسان ہوں میں نے اندازے سے ایک بات کہی تھی تم اسطرح کی باتوں پر مجھے جواب دہ نہ ٹہراؤ جو گمان اور رائے پر مبنی ہو ہاں جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کہوں تو اسے لے لو اس لئے کہ میں اللہ پر کبھی جھوٹ نہ باندھوں گا تم اپنے دنیوی معاملات کو بہتر جانتے ہو(مسلم ۲۲۶۳،۲۳۶۱،۳۴۶۲،بحوالہ اصول ومبادی میزان ۶۴)
Flag Counter