Maktaba Wahhabi

87 - 124
جواب:۔ غامدی صاحب اصولوں کو اپنے ذہن کے مطابق ڈھال کر بیان کررہے ہیں اگر ہم محدثین کے اصول حدیث اور غامدی صاحب کے اصول حدیث کا موازنہ کریں تو کافی حد تک فرق واضح ہوجائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حدیث کی عربی فصیح وبلیغ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین جامع اور فصیح وبلیغ ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یقینی ہے۔کسی صحیح حدیث میں اس قسم کی علت(یعنی عربی لغت کی فصاحت میں کمی یا الفاظ کی رکاکت یا خلاف قرآن وسنت و عقل)ہوتی ہی نہیں ہے۔ محدثین کے اصول کا مطالعہ اگر غور سے کیا جائے تو بات کی وضاحت ہوجاتی ہے اگر چہ محدثین نے یہ چیز بھی ملحوظ رکھی ہے کہ حدیث کے الفاظ کی فصاحت وبلاغت کو دیکھا جائے۔لیکن محدثین کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ کوئی بھی صحیح حدیث کی فصاحت وبلاغت کی کمی کو دیکھ کر یا اسے قرآن وسنت یا عقل کے خلاف محسوس کرکے رد کردیا جائے بلکہ محدثین کا مطلب یہ تھا کہ موضوع(یعنی غیر صحیح گھڑی ہوئی)کی پہچان یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت اور عقل کے خلاف ہوتی ہے یا اس کی عربی میں فصاحت وبلاغت نہیں ہوتی نہ کہ محدثین کا یہ مقصد تھا کہ ہر صحیح حدیث کی عربیت کو چیک کرکے اور اسے قرآن وسنت کے خلاف کہہ کر رد کردیا جائے۔ امام جلال الدین سیوطی نے موضوع حدیث کی بہت سی علامات ذکر کی ہیں جن میں سے یہ بھی ہے کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف ہوتی ہیں یا عقل سلیم کے خلاف ہوتی ہے یا ان میں الفاظ کی رکاکت ہوتی ہے یعنی غیر صحیح وبلیغ الفاظ ہوتے ہیں دیکھئے(تدریب الراوی للسیوطی،ص۲۴۵،۲۴۶)
Flag Counter