Maktaba Wahhabi

88 - 124
غامدی صاحب عربیت کے ذوق کے اصول کو ہر حدیث کے لئے وضع کرکے اپنے نظریہ کے خلاف حدیثوں کا رد کرہے ہیں۔ حالانکہ محدثین نے عربیت کے ذوق کو یعنی اسکی فصاحت وبلاغت کو حدیث کے غلط یا صحیح ہونے کا معیار نہیں ٹہرایا بلکہ غلط حدیث کی پہچان بتائی ہے کہ اسکا ذوق عربیت اوراسکی فصاحت وبلاغت درست نہیں ہوتی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جب غامدی صاحب کے نزدیک روایت حدیث زیادہ تر بالمعنی ہوئی ہے تو اس اصول سے حدیث کو پرکھنے کا کیا فائدہ کیونکہ امام بلقینی موضوع روایت کی علامات بتاتے ہوئے فرماتے ہیں’’أما رکاکۃ اللفظ فقط فلا تدل علی ذٰ لک لاحتمال ان یکون رواہ بالمعنی فغیر الفاظہ بغیر فصیح نعم ان صرح بانہ من لفظ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فکاذب ‘‘(تدریب الراوی،ص۲۴۷) جہاں تک بات ہے الفاظ کی رکاکت کی تو یہ اس پر(یعنی حدیث کے موضوع ہونے پر)دلالت نہیں کرتی کیونکہ اس میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ روایت بالمعنی بھی ہوسکتی ہے(کہ راوی نے)الفاظ بیا ن کرکے انہیں غیر فصیح کردیا ہو ہاں اگر اس بات کی صراحت کرے کہ یہ الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں تو وہ جھوٹا ہے(کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ فصیح ہوتے ہیں) امام بلقینی رحمہ اللہ کے اس کلام سے غامدی صاحب کا مکمل طور پر رد ہوتا ہے۔ (۱) غامدی صاحب کے نزدیک حدیث زیادہ تر روایت بالمعنی ہوئی ہے۔ (۲) امام بلقینی رحمہ اللہ کی اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ،محض الفاظ رکاکت(یعنی غیر فصاحت)سے حدیث موضوع غلط نہیں ہوجاتی اس احتمال کی وجہ سے کہ روایت بالمعنی بھی ہوسکتی ہے۔ (۳) الفاظ کی رکاکت اور غیر فصاحت کے باوجود اگر راوی اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کہے تو
Flag Counter