Maktaba Wahhabi

98 - 124
مگر درحقیقت وہ ایک سراب ہوتا ہے مگر عقل اسے مجبور کررہی ہوتی ہے کہ وہ اسے سمندر جانے اور اسے تسلیم کرے۔ معززین :۔غورفرمائیں اس قدر انسان کو کم عقل دی گئی ہے اور اسی ناقص عقل کی بناہ پر وہ روحانیت کا انکا ر کرجاتا ہے اور اپنی اس عقل کو ان شرعی امور جن کا تعلق قطعی طور پر عقل کے ساتھ نہیں ہوتا اس میں اپنی ناقص عقل کو میزان بنالیتا ہے اور پھر اسی میزان میں ان شرعی معاملات کا وزن کرتا ہے پھر جو چیز اس میزان میں پوری اترتی ہے اسے تسلیم کرلیتا ہے وگرنہ اسے ردکردیتا ہے اور اس کا یہ اصول اور قاعدہ صرف اورصرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ساتھ ہی خاص ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ یہی میزان(عقل کا)قرآن کے ساتھ قائم کرے گا تو اسے معلوم ہے کہ امت مسلمہ اس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرے گی۔درجہ ذیل میں ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : کہ جب ذوالقرنین سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا توتو اس نے دیکھا کہ سورج کیچڑ میں ڈوب رہا تھا(سورۃ الکھف)غور فرمائیں یہ آیت(بظاہر)عقل ونقل اور بدھیات کے خلاف ہے ماڈرن سائنس نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ سورج ایک خطے میں غروب ہوتا ہے تودوسرے خطے میں طلوع ہوتا ہے(ایشیاء اور یورب کی مثال لے لیں)اس کے باوجود تمام لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے کہ اگر دین رائے یا عقل کا نام ہوتا تو مسح ہمیشہ پاؤں کے نچلے حصے میں ہوتا بعض لوگ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول پر بھی اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ جرابوں پر مسح ان کی غلاظت دور کرنے کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی حیثیت محض ایک علامت کی ہے جس سے ہم ایک طرح کی ذہنی پاکیزگی حاصل کرتے ہیں اول بات تو یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کی حیثیت محض تیمّم کی طرح ایک علامت کی سی نہیں ہے کیونکہ تییمّم کا تعلق اضطرابی کیفیت کے ساتھ ہے جبکہ جرابوں پر مسح مطلق طور پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث سے ثابت ہے اگر چہ پانی کم ہویا زیادہ لہٰذا مسح علی الجوربین کو تیمّم کے مشابہ قرار دینا مضحکہ خیز بات ہے اس طرح انسان اگر ہوا خارج کردیتا ہے تو شریعت
Flag Counter