Maktaba Wahhabi

54 - 59
موت کا وقت سب سے زیادہ نازک اور استقامت طلب ہوتا ہے، اور اس وقت اللہ صرف ان اہل ِ ایمان کو ثابت قدم رہنے میں مدد دیتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے میں جدّ و جہد کی ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس اللہ اپنی رحمت کے فرشتے بھیجتا ہے، جو موت کے وقت بندہ کو جنت کی بشارت سنا کر اسے استقامتِ دین پر قائم رکھتے ہیں ۔ ارشادِ الٰہی ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْاوَلَاتَحْزَنُوْاوَاَبْشِرُوْابِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیٰٓئُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَدَّعُوْنَoنُزُلًامِّنْ غَفُوْرٍرَّحِیْمٍo} )سورۃحٰمٓ السَّجْدَۃ:۳۰۔۳۲( ’’(واقعی) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے ،پھر اسی پر قائم رہے، ان کے پاس فرشتے( یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو(بلکہ)اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو۔ تمہاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے‘ جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے(جنت میں موجود) ہے۔غفور ورحیم(معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور ِمہمانی ہے۔‘‘ صحیح مسلم ،سنن ِاربعہ اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ ،ابوسعید خدری اور اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ارشاد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ )) ’’اپنے قریب المرگ لوگوں کو کلمۂ توحید پڑھنے کی تلقین وترغیب دلاؤ۔‘‘
Flag Counter