Maktaba Wahhabi

54 - 75
(حَدَّثَنِیْ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِیُّ قَالَ لَنَا أُبَیٌّ قَالَ لَنَا مُحَمَّدٌ بْنُ عَمْرٍو اللَّیْثِیُّ عَنْ عَمْرٍو بْنِ مُسْلِمٍ بْنِ عَمَّارِ ابْنِ أُکَیْمَۃَ اللَّیْثِیِّ قَالَ سَمِعْتُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ یَقُوْلُ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم …الخ) [1] یہی روایت ابو داؤد ص:۱۰، ج: ۲، ترمذی مع التحفہ ص:۳۶۵ ج: ۲، نسائی مجتبیٰ ص: ۱۹۴ ج: ۲، ابن ماجہ ص: ۲۳۴، بیہقی ص: ۳۶۶ ج: ۹، المحلّٰی لابن حزم ص: ۳ ج: ۶ اور شرح معانی الآثار ص: ۳۳۴، ج: ۲و غیرہ میں صحیح مسلم کی سند سے مروی ہے۔ ان سب میں عمرو ابن مسلم بن عمار کے آگے ابن أکیمہ اللیثی کا واسطہ قطعاً نہیں ہے۔ اس تحریف کی ضرورت اس لیٔے پیش آئی کہ: ترمذی مع التحفہ ص: ۲۵۴ ج: ۱ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث مروی ہے جس سے فریقِ ثانی ترکِ قراء ت خلف الامام کا استدلال کرتا ہے۔[2] مگر اس کی سند میں ابن أکیمہ اللیثی راوی ہے۔ صحیح مسلم میں تحریف اس غرض سے کی گئی تاکہ ابن أکیمہ اللیثی کو صحیح مسلم کا راوی باور کرایا جائے۔ اہلِ علم سے گزارش ہے کہ وہ حافظ ابن حجر کی تالیف [تہذیب التہذیب ص: ۴۱۰ ج: ۷] کا مطالعہ کر لیں کہ انہوں نے اسے سننِ اربعہ کا راوی تو بتایا ہے مگر صحیح مسلم کا نہیں، اگر مذکورہ سند میں اس کا واسطہ ہوتا تو وہ اسے ذکر کرتے ۔[3] 7 مستدرک حاکم میں ابان بن یزید عن قتادہ عن زرارہ بن اوفیٰ عن سعد بن ہشام کی سند سے ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وتر کی تعداد کے بارے میں مروی ہے جو متن کے اعتبار سے شاذ ہے ۔ (تفصیل دین الحق ص: ۴۳۴ ج:۱ میں دیکھیئے) اس حدیث کے الفاظ یہ تھے : ((عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُوْتِرُ بِثَلَاثٍ لَا یَقْعُدُ اِلَّا فِیْ آخِرِہِنَّ))
Flag Counter