Maktaba Wahhabi

62 - 92
مقصد نہیں کہ آج اگر کوئی مشرک داڑھی رکھ لے یا جیسے سکھوں نے رکھی ہوتی ہے تو ہم ان کی مخالت میں کٹوا دیں، نہیں بلکہ داڑھی کٹوانا اور منڈھوانا ان کی اکثر عادت ہے بلکہ یہ عادت مسلمانوں میں بھی انہی کے طریق سے آئی ہے اور اگر کوئی داڑھی رکھتا ہے تو وہ نبی کے فرمان کو سامنے رکھ کر نہیں رکھتا کیونکہ جو نبی کے فرمان کو سامنے رکھ کر داڑھی رکھے گا وہ شرک کیسے کر سکتا ہے، وہ قبروں کو سجدے کیسے کر سکتا ہے؟ تو یہ داڑھی یا تو شوقیہ طور پر ہوتی ہے یا رجولیت وفحولیت کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ رہا یہ کہ آج کل بعض یہودی اور عیسائی داڑھی رکھتے ہیں توہمیں ان کی مخالفت میں کٹوا دینی چاہیے، نہیں بالکل نہیں! بلکہ ہمیںمخالفت کا حکم اس وقت ہے جب وہ کٹوائیں یا منڈھوائیں۔ ہم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کی مخالفت بھی کریں گے لیکن اگر مطلقاً ہر حال میں ان کی مخالفت کرنا ہوتی کہ اگر وہ داڑھی رکھیں تو ہم کٹو ا دیں تو اس سے شریعت اسلامی مستقر نہیں رہ سکتی بلکہ کھیل کود بن جائے گی۔ اس طرح تو ہمیں ختنہ کروانے کی سنت بھی چھوڑنی پڑے گی کیوںکہ آج کل یہودی اور عیسائی بھی طبی فوائد کے لیے ختنہ کروا رہے ہیں۔ اسی طرح جو مسلمان ہونے کے باوجود داڑھیاں نہیں رکھتے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی پیروی اس دلیل کے ساتھ کی جائے کہ وہ بھی تومسلمان ہیں یا پھر ان کو کافر کہیں؟ ہم نہ ان کو کافر کہیں گے نہ ان کو دلیل بنائیں گے، کیونکہ حجت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔کسی کا فعل نہیں کیونکہ قاعدہ یہ ہے ((افعال الناس لاینسخون احکام الالٰھیۃ۔)) … ’’لوگوں کے افعال احکام الٰہی کو منسوخ نہیں کر سکتے‘‘… ان دلائل کے بعد بھی کوئی مسلمان لولی لنگڑی اور بودی دلیل دے کر اپنے آپ کو سچا کہلوائے اور پھر کہے کہ زمانہ برا ہے میں نہیں، تو شاعر اس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ: نعیب زماننا والعیب فینا ولیس العیب فی الزمان سوانا ’’ہم زمانے کو عیب دار خیال کرتے ہیں حالانکہ عیب توہم میں ہے، اور ہمارے
Flag Counter