Maktaba Wahhabi

77 - 92
نہیں لی جاتی‘‘…اور امام نسائی نے بھی اس کو متروک الحدیث ، کا لقب دیا ہے یعنی اس کی حدیث نہیں لی جاتی،امام احمد وابن مہدی نے بھی اس کو متروک الحدیث کہا ہے۔ ٭ یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ (عمربن ہارون کذّاب خبیث) ’’یہ جھوٹا اور خبیث ہے‘‘…اور اسی طرح صالح جزرہ نے بھی اس کو کذاب (جھوٹا) کہا ہے۔علامہ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کاندھلوی کی کتاب’’وجوب إعفاء اللحیۃ ، ص: 21‘‘ پر یہ تعلیق لکھواتے ہیں:(ھذا حدیث لایصح عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بل ھو باطل لکونہ مخالفا للاحادیث الصحیحۃ… ولان فی اسنادہ عمر بن ہارون البلخی وھو متروک الحدیث متھم بالکذب)’’یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ یہ باطل ہے کیونکہ یہ صحیح احادیث کے مخالف ہے (جیسا کہ صحیح احادیث گزریں) اور چونکہ اس میں عمر بن ہارون بلخی ہے جو کہ متروک الحدیث متہم بالکذب ہے‘‘… اس لیے اس حدیث کو حجت بنانا جائز نہیں۔ ٭ امام دار قطنی اور ابو الاشج اور الساجی فرماتے ہیں کہ (ضعیف الحدیث)’’اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے یہ صحیح روایات بیان نہیں کرتا‘‘…جیسا کہ امام نووی نے (شرح المھذب 1/ 321) پر کہا ہے کہ ((اما حدیث عمرو بن شعیب… فرواہ الترمذی باسناد ضعیف لایحتج بہ))’’یہ روایت ضعیف سند کے ساتھ ہے اس کو حجت نہیں بنایا جائے گا۔‘‘… اور علامہ المبارکپوری ترمذی کی شرح (تحفۃ الاحوذی 8/49) میں فرماتے ہیں کہ (حدیث ضعیف لا یصلح للاحتجاج)’’ یہ حدیث ضعیف ہے جو حجت کے لیے کارآمد نہیں ہو سکتی‘‘… اور ایک جگہ(تحفۃ الاخودی8/46) پر فرماتے ہیںکہ ((حدیث عمرو بن شعیب ھٰذا ضعیف جداً))’’عمرو بن شعیب کی یہ حدیث ضعیف جداً ہے‘‘… اور امام العجلی نے بھی اس کو یعنی عمر بن ہارون کو ضعیف کہا ہے۔ اسی طرح ابو علی المدینی نے اس کو ضعیف جداً کہا ہے۔
Flag Counter