Maktaba Wahhabi

1175 - 644
بعد پھر آپ نے سفر جاری رکھا یہاں تک کہ رات کے ابتدائی اوقات میں مرالظہران ۔وادی فاطمہ ۔ پہنچ کر نزول فرمایا۔ وہاں آپ کے حکم سے لوگوں نے الگ الگ آگ جلائی۔ اس طرح دس ہزار (چولہوں میں) آگ جلائی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پہرے پر مقرر فرمایا۔ ابو سفیان دربارِ نبوت میں: مر الظہران میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہوکر نکلے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کوئی لکڑہارا یا کوئی بھی آدمی مل جائے تو اس سے قریش کے پاس خبر بھیج دیں تاکہ وہ مکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داخل ہونے سے پہلے آپ کے پاس حاضر ہوکر امان طلب کرلیں۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے قریش پر ساری خبروں کی رسائی روک دی تھی۔ اس لیے انہیں حالات کا کچھ علم نہ تھا، البتہ وہ خوف اور اندیشے سے دوچار تھے اور ابو سفیان باہر جاجاکر خبروں کا پتہ لگا تا رہتا تھا۔ چنانچہ اس وقت بھی وہ اور حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء خبروں کا پتہ لگانے کی غرض سے نکلے ہوئے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ واللہ ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار جارہا تھا کہ مجھے ابو سفیان اور بدیل بن ورقاء کی گفتگوسنائی پڑی۔ وہ باہم ردوقدح کررہے تھے۔ ابو سفیان کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم ! میں نے آج رات جیسی آگ اور ایسا لشکر تو کبھی دیکھا ہی نہیں، اور جواب میں بدیل کہہ رہا تھا : یہ اللہ کی قسم! بنو خزاعہ ہیں۔ جنگ نے انہیں نوچ کر رکھ دیا ہے، اور اس پر ابو سفیان کہہ رہا تھا:خزاعہ اس سے کہیں کمتر اور ذلیل ہیں کہ یہ ان کی آگ اور ان کا لشکر ہو۔ حضر ت عباس کہتے ہیں کہ میں نے ا س کی آواز پہچان لی اور کہا : ابو حنظلہ ؟ اس نے بھی میری آواز پہچان لی اور بولا : ابو الفضل ؟ میں نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : کیا بات ہے ؟ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ، میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لوگوں سمیت۔ ہائے قریش کی تباہی ۔۔ واللہ ! اس نے کہا : اب کیا حیلہ ہے ؟ میرے ماں باپ تم پر قربان۔ میں نے کہا: واللہ! اگر وہ تمہیں پاگئے
Flag Counter