Maktaba Wahhabi

989 - 644
مشرکین کی شکست: کچھ دیر تک اسی طرح شدید جنگ ہوتی رہی۔ اور چھوٹا سا اسلامی لشکر ، رفتارِ جنگ پر پوری طرح مسلط رہا۔ بالآخر مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ ان کی صفیں دائیں بائیں ، آگے پیچھے سے بکھرنے لگیں۔ گویا تین ہزار مشرکین کو سات سو نہیں بلکہ تیس ہزار مسلمانوں کا سامنا ہے۔ ادھر مسلمان تھے کہ ایمان ویقین اور جانبازی وشجاعت کی نہایت بلند پایہ تصویر بنے شمشیر وسنان کے جوہر دکھلارہے تھے۔ جب قریش نے مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملے روکنے کے لیے اپنی انتہائی طاقت صَرف کر نے کے باوجود مجبوری وبے بسی محسوس کی ، اور ان کے حوصلے اس حد تک ٹوٹ گئے کہ صواب کے قتل کے بعد کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ سلسلۂ جنگ جاری رکھنے کے لیے اپنے گرے ہوئے جھنڈے کے قریب جاکر اسے بلند کرے تو انہوں نے پسپا ہونا شروع کر دیا۔ اور فرار کی راہ اختیار کی۔ اور بدلہ وانتقام ، بحالیٔ عزت ووقار اور واپسیٔ مجد وشرف کی جو باتیں انہوں نے سوچ رکھی تھیں انہیں یکسر بھول گئے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں پر اپنی مدد نازل کی، اور ان سے اپنا وعدہ پورا کیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے تلواروں سے مشرکین کی ایسی کٹائی کی کہ وہ کیمپ سے بھی پرے بھاگ گئے۔ اور بلا شبہ ان کو شکست فاش ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے والد نے فرمایا: واللہ! میں نے دیکھا کہ ہند بنت عتبہ اور اس کی ساتھی عورتوں کی پنڈلیاں نظر آرہی ہیں۔ وہ کپڑے اٹھائے بھاگی جارہی ہیں۔ ان کی گرفتاری میں کچھ بھی حائل نہیں ____الخ [1] صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب مشرکین سے ہماری ٹکر ہوئی تو مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی۔ یہاں تک کہ میں نے عورتوں کو دیکھا کہ پنڈلیوں سے کپڑ ے اٹھائے پہاڑ میں تیزی سے بھاگ رہی تھیں۔ ان کے پازیب دکھائی پڑرہے تھے۔ [2]اور اس بھگدڑ کے عالم میں مسلمان مشرکین پر تلوار چلاتے اور مال سمیٹتے ہوئے ان کا تعاقب کررہے تھے۔ تیر اندازوں کی خوفناک غلطی: لیکن عین اس وقت جبکہ یہ مختصر سااسلامی لشکر اہل ِ مکہ کے خلاف تاریخ کے اوراق پر ایک اور
Flag Counter