Maktaba Wahhabi

786 - 644
ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تلاوت شروع کی تو عتبہ چپ چاپ سنتا رہا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس قول پر پہنچے: ﴿فَاِنْ اَعْرَضُوا فَقُلْ اَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَثَمُودَ﴾(فصلت41: 13) ترجمہ: پس اگر وہ روگرانی کریں تو تم کہہ دو کہ میں عاد و ثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں۔ تو عتبہ تھرّا کر کھڑا ہو گیا اور یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر رکھ دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا اور قرابت کا واسطہ دیتا ہوں (کہ ایسا نہ کریں) اسے خطرہ تھا کہ کہیں یہ ڈراوا آن نہ پڑے،اس کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور یہ گفتگو ہوئی۔[1] ابو طالب بنی ہاشم اور بنی مطّلب کو جمع کرتے ہیں: حالات کی رفتار بدل چکی تھی،گردوپیش کے ماحول میں فرق آچکا تھا، لیکن ابو طالب کے اندیشے برقرار تھے۔انہیں مشرکین کی طرف سے اپنے بھتیجے کے متعلق برابر خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ وہ پچھلے واقعات پر برابر غور کر رہے تھے۔مشرکین نے انہیں مقابلہ آرائی کی دھمکی دی تھیپھر انکے بھتیجے کو عمارہ بن ولید کے عوض حاصل کرکے قتل کرنے کیلئے سودے بازی کی کوشش کی تھی۔ابوجہل ایک بھاری پتھر لیکر ان کے بھتیجے کا سر کچلنے اٹھا تھا۔ عقبہ بن ابی معیط نے چادر لپیٹ کر گلا گھونٹنے اور مار ڈالنے کی کوشش کی تھی۔خطاب کا بیٹا تلوار سے ان کا کام تمام کرنے نکلا تھا۔ابو طالب ان واقعات پر غور کرتے تو انہیں ایک ایسے سنگین خطرے کی بو محسوس ہوتی جس سے انکا دل کانپ اٹھتا۔ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ مشرکین انکا عہد توڑنے اور انکے بھتیجے کا قتل کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔اور ان حالات میں خدانخواستہ اگر کوئی مشرک اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑا تو حمزہ یا عمر یا کوئی اور شخص کیا کام دے سکے گا۔ابو طالب کے نزدیک یہ بات یقینی تھی اور بہر حال صحیح بھی تھی۔ کیونکہ مشرکین اعلانیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اور انکے اسی فیصلے کی طرف اللہ تعالیٰ کے اس قول میں اشارہ ہے:
Flag Counter