Maktaba Wahhabi

747 - 644
اور مطالبہ کریں کہ وہ آپ کو آپ کے کام سے روک دیں ۔ پھر انہوں نے اس مطالبے کو حقیقت و واقعیت کا جامہ پہنانے کیلئیے یہ دلیل تیار کی کہ ان معبودوں کو چھوڑنے کی دعوت دینا اور یہ کہنا کہ یہ معبود نفع و نقصان پہنچانے یا کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے درحقیقت ان معبودوں کی سخت توہین اور بہت بری گالی ہے اور یہ ہمارے ان آباؤاجداد کو احمق اور گمراہ قرار دینے کے بھی ہم معنی ہے جو اسی دین پر گزر چکے ہیں ______ قریش کو یہی راستہ سمجھ میں آیا اور انہوں نے بڑی تیزی سے اس پر چلنا شروع کردیا ۔ قریش ابو طالب کی خدمت میں: ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ اشراف قریش سے چند آدمی ابو طالب کے پاس گئے اور بولے:" اے ابو طالب! آپ کے بھتیجے نے ہمارے خداؤں کا برا بھلا کہاہے، ہمارے دین کی عیب چینی کی ہے، ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے، اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا ہے۔ لہذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں،یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں،کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ان سے مختلف دین پر ہیں۔ہم انکے معاملے میں آپ کے لئے بھی کافی رہینگے۔" اس کے جواب میں ابو طالب نے نرم بات کہی اور رازدارانہ لہجہ اختیار کیا۔چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سابقہ طریقے پر رواں دواں رہتے ہوئے اللہ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ میں مصروف رہے۔[1] حجّاج کو روکنے کیلئے مجلس شوریٰ: ان ہی دنوں قریش کے سامنے ایک اور مشکل آن کھڑی ہوئی،یعنی ابھی کھلم کھلا تبلیغ کو چند ہی مہینے گزرے تھے کہ موسم حج قریب آگیا۔ قریش کو معلوم تھا کہ اب عرب کے وفود کی آمد شروع ہوگی اس لئے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی ایسی بات کہیں کہ جسکی وجہ سے اہل عرب کے دلوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا اثر نہ ہو۔ چنانچہ وہ اس بات پر گفت و شنید کیلئے ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے۔ولید نے کہا: اس بارے میں تم سب لوگ ایک رائے اختیار کر لو۔تم میں باہم کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئیے کہ خود تمہارا ہی ایک آدمی دوسرے آدمی کی تکذیب کردے اور ایک کی بات دوسرے کی بات کو کاٹ دے۔ لوگوں نے کہا آپ ہی کہئیے۔ اس نے کہا، نہیں تم لوگ کہو، میں سنوں گا،اس
Flag Counter