Maktaba Wahhabi

848 - 644
پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ آپ نے فرمایا : ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ بس آپ لوگ اپنے ڈیروں میں چلے جائیں۔ اس کے بعد لوگ واپس جاکر سو گئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔[1] رؤساء یثرب سے قریش کا احتجاج: یہ خبر قریش کے کانوں تک پہنچی تو غم والم کی شدت سے ان کے اندر کہرام مچ گیا۔ کیونکہ اس جیسی بیعت کے جو نتائج ان کی جان ومال پر مرتب ہوسکتے تھے اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی ان کے رؤساء اور اکابر مجرمین کے ایک بھاری بھرکم وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کے لیے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا ، اور یوں عرض پرداز ہوا۔ خزرج کے لوگو! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ ہمارے اس صاحب کو ہمارے درمیان سے نکال لے جانے کے لیے آئے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں۔ حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمارے لیے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔[2] لیکن چونکہ مشرکین خزرج اس بیعت کے بارے میں سرے سے کچھ جانتے ہی نہ تھے ، کیونکہ یہ مکمل راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی اس لیے ان مشرکین نے اللہ کی قسم کھا کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ہم اس طرح کی کوئی بات سرے سے جانتے ہیں نہیں۔ بالآخر یہ وفد عبد اللہ بن اُبی ابن سلول کے پاس پہنچا۔ وہ بھی کہنے لگا یہ باطل ہے۔ ایسا نہیں ہوا ہے ، اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میری قوم مجھے چھوڑ کر اس طرح کاکام کرڈالے۔ اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی مجھ سے مشورہ کیے بغیر میری قوم ایسا نہ کرتی۔ باقی رہے مسلمان تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اورچپ سادھ لی۔ ان میں سے کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان ہی نہیں کھولی۔ آخر رؤساء قریش کا رجحان یہ رہا کہ مشرکین کی بات سچ ہے، اس لیے وہ نامراد واپس چلے گئے۔ خبر کا تیقن اور بیعت کرنے والوں کا تعاقب: رؤساء مکہ تقریباً اس یقین کے ساتھ پلٹے تھے کہ یہ خبر غلط ہے، لیکن اس کی کرید میں وہ برابر لگے رہے۔ بالآخر انہیں یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ خبر صحیح ہے اور بیعت ہوچکی ہے لیکن یہ پتہ اس وقت چلا جب
Flag Counter