Maktaba Wahhabi

118 - 555
میں گھٹنے لگتا ہے ۔جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے ۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت ورسوائی کے باوجود اپنے پاس رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے۔ آہ ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں ۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی حالت کو بیان فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی شخص کوجب اس کے گھر میں بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ کالا سیاہ ہو جاتا اور وہ مارے شرم کے لوگوں سے چھپتا پھرتا اور غم میں نڈھال ہو کر سوچتا رہتا کہ اب اس لڑکی کے وجود کو ذلت ورسوائی کے ساتھ برداشت کرلے یا اسے زندہ در گور کر دے ! امام بغوی کہتے ہیں : ’’ عرب میں یہ رواج عام تھا کہ جب کسی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی اور وہ اسے زندہ باقی رکھنا چاہتا تو اسے اونی جبہ پہنا کر اونٹوں اور بکریوں کو چرانے کیلئے کہیں دور دراز بھیج دیتا ۔ اور اگر اسے مارنا چاہتا تو وہ جب چھ سال کی ہو جاتی تووہ پہلے کسی جنگل میں جا کر ایک گڑھا کھودتا ، پھر گھر آ کر اپنی بیوی سے کہتا کہ اسے خوب اچھا لباس پہنا دو تاکہ وہ اسے اس کے ننھیال ( یا اس کے دادا دادی) سے ملا لائے۔ پھر جب اس گڑھے تک پہنچتا تو اسے کہتا : اس گڑھے کے اندر دیکھو ۔ چنانچہ وہ اسے دیکھنے کیلئے جھکتی تو یہ اسے پیچھے سے دھکا دے دیتا ، وہ اس میں گر جاتی اور یہ اس کے اوپر مٹی ڈال دیتا ۔‘‘[1] یہ تھا زمانۂ جاہلیت میں کسی عورت کا مقام کہ اس کا وجود ہی عار تصور کیا جاتا اور اسے زندہ در گور کردیا جاتا ۔ جبکہ اسلام نے گھر میں بیٹی کی پیدائش کو باعث ِ برکت قرار دیا اور اسے زندہ درگور کرنا حرام کردیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْأُمَّہَاتِ،وَوَأْدَ الْبَنَاتِ [2])) ’’ اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کرنا اور بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا حرام کردیا ہے ۔ ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی تعلیم وتربیت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا : (( مَنِ ابْتُلِیَ مِنْ ہٰذِہِ الْبَنَاتِ بِشَیْئٍ فَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ [3]))
Flag Counter