Maktaba Wahhabi

345 - 555
’’ ہمارا رب جو بابرکت اور بلند وبالا ہے ہر رات کا جب آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ۔ پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردو ں ؟ ‘‘ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : ’’ پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے ۔‘‘ 4۔ اگر کوئی شخص تہجد کیلئے بیدار ہونے کا ارادہ کرکے سوئے ، پھر وہ بیدا رنہ ہو سکے تو اسے نماز تہجد ( وتر سمیت ) جتنی وہ پڑھنے کا عادی تھا ، اس پر ایک رکعت بڑھا کر اشراق سے لیکر زوال تک کسی وقت قضاء کرلینی چاہئے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز شروع فرماتے تو اسے ہمیشہ جاری رکھتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند غالب آجاتی یا آپ کو کوئی تکلیف ہوتی جس سے آپ قیامِ لیل نہ کر پاتے تو دن کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ رکعات پڑھ لیتے ۔۔۔۔ [1] اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا : (( مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِہٖ أَوْ نَامَ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ بَیْنَ صَلاَۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الظُّہْرِ کُتِبَ لَہُ کَأَنَّمَا قَرَأَہُ مِنَ اللَّیْلِ )) [2] ’’ جو شخص اپنا ورد یا اس کا کچھ حصہ نیند کی وجہ سے نہ پڑھ سکے اور اسے نماز فجر اورنمازِ ظہر کے درمیان پڑھ لے تو وہ اس کیلئے ایسے ہی لکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ اس نے اسے رات کو پڑھا۔ ‘‘ 4۔ رکعاتِ نماز وتر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وتر کی متعدد کیفیات ورکعات ثابت ہیں : 1۔ گیارہ رکعات : ہر دو رکعتوں کے بعد سلام اور آخر میں ایک وتر۔[3] 2۔تیرہ رکعات : ہر دو رکعتوں کے بعد سلام اور آخر میں ایک وتر۔[4] 3۔نو رکعات : ان رضی اللہ عنہم یں آٹھ رکعات ایک ہی تشہد کے ساتھ اور پھر ایک وتر۔[5]
Flag Counter