Maktaba Wahhabi

372 - 555
لو۔ ( ورنہ جب موت آجائے گی تو وہ کفِ افسوس ملتے ہوئے ) کہے گا : اے میرے رب ! مجھے تو نے تھوڑی دیر کیلئے مہلت کیوں نہ دی کہ میں اس میں صدقہ کرلیتا اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا ۔ ‘‘ گویا موت کے وقت نیکی کرنے کی خواہش اور نیک لوگوں میں سے ہوجانے کی تمنا کسی کام نہیں آئے گی ۔ اس لئے وہ وقت آنے سے پہلے ہی انسان کو نیکی اور توبہ کرلینی چاہئے ۔ موت کی یاد برادرانِ اسلام ! موت کو ہر دم یاد رکھنا چاہئے اور کبھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے ۔ اور ہر انسان کو اپنے ان رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق سوچنا چاہئے کہ جو کل تک دنیا میں اس کے ساتھ تھے اور آج مٹی کے ڈھیر تلے دب چکے ہیں ۔ بڑی حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو اپنے کندھوں پر کئی جنازے اٹھا چکا ہو ، اپنے ہاتھوں کئی فوت شدگان کو دفن کر چکا ہو ، اپنی آنکھوں سے قبرستان کے کئی خوفناک مناظر دیکھ چکا ہو ، اپنے کانوں سے کئی لوگوں کی اچانک موت کے واقعات سن چکا ہو اور پھر بھی اپنی موت سے غافل ہو ! امام ابن قدامہ نے موت کی یاد کے حوالے سے لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے : ایک وہ انسان ہے جو کہ دنیاوی کاموں میں بری طرح مشغول رہتا ہے اور دنیا کی طلب میں دن رات ایک کردیتا ہے ۔ ایسا شخص موت سے غافل رہتا ہے اور اگر کبھی اسے موت یاد بھی آتی ہے تو وہ اس سے نفرت کرتا ہے ۔ دوسرا وہ انسان ہے جو کہ موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کرتا ہے اور موت کو یاد کرکے اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے وہ کثرت سے توبہ کرتا رہتا ہے ۔ ایسا شخص موت سے محبت کرنے والا ہوتا ہے اور اگر اس کے دل میں کبھی موت کو ناپسند کرنے کا خیال آتا بھی ہے تو وہ محض اس لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہ گار تصور کرتا ہے اور مزید نیکیاں کمانے کا خواہشمند ہوتا ہے ۔ اور اس کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اس کی موت اس حالت میں آئے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو ۔ تو اس تمنا کے پورا ہونے تک اگر وہ موت کو ناپسند کرتا ہو تو اور بات ہے ورنہ عام حالات میں موت اسے پسند ہی ہوتی ہے۔ اور تیسرا انسان وہ ہے جو کہ موت کو ہر دم یاد رکھتا ہے اور کسی بھی لمحے اس سے غافل نہیں ہوتا ۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ سے جلد ملاقات کرنے کا متمنی ہوتا ہے تاکہ وہ دنیا کی پریشانیوں سے نجات پاکر جلد از جلد نعمتوں والے گھر میں جا پہنچے ۔
Flag Counter