Maktaba Wahhabi

394 - 555
یاد رہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو قبر کے دبوچنے کے سبب کے بارے میں الحکیم الترمذی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ وہ پیشاب سے بچنے میں کوتاہی کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے قبر نے انہیں دبوچا۔مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ نے التعلیقات السلفیۃ میں الحکیم الترمذی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد سنن بیہقی کا حوالہ دیا ہے اور انہوں نے ابو القاسم السعدی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ قبر ہر نیک وبد کو دبوچتی ہے ۔ لیکن مسلمان اور کافر میں فرق یہ ہے کہ کافر کو ہمیشہ اس سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور مومن کو جب قبر میں دفنایا جاتا ہے تو اسے قبر دبوچتی ہے ، پھر وہ اس کیلئے کھلی ہو جاتی ہے ۔[1] قبر میں میت سے فرشتوں کے سوالات اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ قبرمیں میت سے سوالات کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ بے شک میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور نیک آدمی کو اس کی قبر میں بے خوف وخطر بٹھا کر اس سے پوچھا جاتا ہے : تم کس حالت میں تھے ؟ وہ کہتا ہے : میں اسلام کی حالت میں تھا ۔ اسے کہا جاتا ہے : یہ شخص کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ ہمارے پاس اللہ کی نشانیاں لے کرآئے تو ہم نے ان کی تصدیق کی ۔ اس سے کہا جاتا ہے : کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے ؟ وہ کہتا ہے : نہیں یہ تو کسی کے لائق ہی نہیں کہ وہ اللہ کو دیکھے ۔ پھر جہنم کی آگ کی طرف اس کیلئے ایک چھوٹا سا سوراخ کیا جاتا ہے تو وہ جہنم کی طرف دیکھتا ہے جس کے شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہوتے ہیں ۔ اسے کہا جاتا ہے : دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے تمھیں کیسے بچا لیا ہے ! پھر جنت کی طرف اس کیلئے ایک چھوٹا سا سوراخ کیا جاتا ہے۔چنانچہ وہ جنت کی شادابی اور اس کی نعمتوں کو دیکھتا ہے ۔ پھر اسے کہا جاتا ہے : یہ تمھارا ٹھکانا ہے کیونکہ تم ایمان پر تھے ، اسی پر تمھاری موت آئی اور اسی پر تمھیں ان شاء اللہ تعالیٰ اٹھایا جائے گا ۔ اور برے آدمی کو اس کی قبر میں خوف اور رعب کی حالت میں بٹھایا جاتا ہے ۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے : تم کس حالت میں تھے ؟ وہ کہتا ہے : مجھے کچھ پتہ نہیں ۔
Flag Counter