Maktaba Wahhabi

213 - 492
والإیمان بہ واجب ، والسؤال عنہ بدعۃ)یعنی ’’ استواء(کا معنی)معلوم ہے ، اس کی کیفیت نا معلوم ہے ، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ ‘‘ 5۔اس صفت پر مرتب ہونے والے احکام اور آثار پر ایمان لاناجیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، بزرگی اور بڑائی جو اس کے شایان شان ہے۔ اسی طرح اس صفت سے اللہ تعالیٰ کا مطلقاً اپنی مخلوقات پر بلند ہوناثابت ہوتا ہے اوراس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ذات کے اعتبار سے ہر جگہ پر موجود مانتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر ہی مستوی ہے۔ہاں وہ اپنی صفات(مثلا علم ، سننا ، دیکھنا ، نگرانی کرنا اور احاطہ کرنا وغیرہ)کے اعتبار سے ہر جگہ پرموجود ہے اور دنیا میں کوئی کام اس کے علم کے بغیر نہیں ہوتا۔وہ کائنات کی تمام حرکات وسکنات کا علم رکھتا ہے ، انھیں سنتا اور دیکھتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الأرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’ اور غیب کی چابیاں تو اسی کے پاس ہیں۔انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔سمندر اور خوشکی میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے۔ اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ جانتا نہ ہو۔نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو۔اور تر اور خوشک جو کچھ بھی ہو سب کتاب مبین میں موجود ہے۔‘‘[1] اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر مستوی ہے ، اس کی تائید اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی(العلی)بھی کرتا ہے جس سے اس کی صفت(العلو)ثابت ہوتی ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ﴾’’ وہ بلند وبرتر اور عظمت والا ہے ‘‘[2] اس کے علاوہ اللہ کے بندوں کے دل بھی سجدہ کی حالت میں ، اسی طرح دعا کرتے ہوئے اسی بلندی کی طرف ہی متوجہ ہوتے ہیں اور سجدہ کرنے والا پکارتا ہے:(سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأعْلٰی)’’پاک ہے میرا پروردگار جو بلند وبالا اور عظمت والا ہے۔‘‘ ذاتی اور فعلی صفات کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں جو عقیدہ ہم نے ذکر کیا ہے ، اہل السنۃ والجماعۃ یہی عقیدہ اللہ تعالیٰ کی
Flag Counter