Maktaba Wahhabi

313 - 492
گا تو اسے ہم جہنم میں جھونک دیں گے اور یہ کام اللہ تعالی کیلئے بہت آسان ہے۔‘‘[1] یعنی یہ اللہ تعالی کیلئے مشکل نہیں کہ جو شخص اس کی طرف سے آئی ہوئی آزمائشوں کو برداشت نہ کرے ، مصیبتوں پر صبر نہ کرے اور پھر اپنی زندگی سے مایوس ہو کر اپنے آپ کو مار ڈالے تو وہ اسے جہنم میں ڈال دے۔یہ اس کیلئے نہایت آسان کام ہے۔جو آدمی اس طرح کا قدم اٹھاتا ہے وہ گویا اللہ کی رحمت سے مایوس ہو چکا ہوتا ہے اور اس کی رحمت سے مایوس کون ہوتا ہے ؟ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ ﴾ ’’ اللہ کی رحمت سے مایوس تو کافر ہی ہوتے ہیں۔‘‘[2] دوسری آیت میں فرمایا:﴿وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ ﴾ ’’ اور اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘[3] ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ رحمتِ باری تعالی سے مایوس وہی ہو سکتا ہے جو کافر اور گمراہ ہو۔مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس کی رحمت سے مایوس ہو۔لہذا جو شخص مایو س ہو کر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کردے تو اسی کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ اسے جہنم میں جھونک دے گا۔والعیاذ باللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصول مقرر کردیا ہے کہ (لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ)’’ نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ کسی اور کو۔‘‘[4] لہذا ایسے جتنے بھی کام ہیں کہ جن سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہویا جو اس کی بربادی کا سبب بن سکتے ہوں وہ سب حرام ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں خود کشی کرنا کتنا بڑا جرم ہے اس کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں: حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ تم سے پہلی امت میں ایک شخص تھا جسے ایک زخم لگا تو وہ اسے برداشت نہ کر سکا ، چنانچہ اس نے چھری اٹھائی اور اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔اس سے اس کا خون بہنے لگا حتی کہ وہ مر گیا۔ اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا: (بَادَرَنِی عَبْدِی بِنَفْسِہِ ، حَرَّمْتُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ) ’’ میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں جلد بازی کی(تکلیف کو برداشت نہ کیا اور خود ہی اپنے آپ کو مار ڈالا)اس پر میں نے جنت کو حرام کردیا ہے۔‘‘ [5]
Flag Counter