Maktaba Wahhabi

342 - 492
ہے ؟ اس نے کہا:میں نے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کیلئے کہانت کی تھی۔میں کہانت جانتا تو نہ تھا البتہ میں اسے دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا۔آج اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے یہی کھانا مجھے دیا جس سے آپ نے بھی کھایا ہے ! چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں داخل کیا اور کوشش کرکے جو کچھ ان کے پیٹ میں تھا اسے قے کر ڈالا۔[1] ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسی طرح محتاط ہو جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم محتاط تھے۔ چوتھا سبب:طمع اور لالچ جی ہاں ، طمع اور لالچ انسان کو اندھا کردیتی ہے۔پھر وہ کچھ نہیں دیکھتا کہ حلال کما رہا ہے یا حرام ! حالانکہ یہ لالچ کتنی بری بلا ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جا سکتاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِی غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِیْنِہِ) ’’ ایسے دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں میں چھوڑ دیا جائے وہ ان میں اتنی خرابی نہیں کرتے جتنی خرابی مال اور جاہ ومنصب پر بندے کی لالچ کی وجہ سے اس کے دین میں ہوتی ہے۔‘‘ [2] مطلب یہ ہے کہ اگر دو بھوکے بھیڑیوں کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے کہ وہ جو چاہیں اور جیسے چاہیں کریں تو وہ اس ریوڑ میں جتنی تباہی وبربادی پھیلائیں گے وہ اُس تباہی وبربادی سے زیادہ نہیں ہوتی جو کسی انسان کے دین میں اس وقت واقع ہوتی ہے جب وہ مال اور جاہ ومنصب کی لالچ میں مبتلا ہوتا ہے۔یعنی اِس بندے کی دینی تباہی زیادہ ہوتی ہے اُس پہلی تباہی سے۔واللّٰه المستعان اللہ تعالی ہمیں ایسی لالچ سے محفوظ رکھے۔اور ہمیں رزقِ حلال پر قناعت نصیب کرے۔
Flag Counter