Maktaba Wahhabi

407 - 492
’’ خبر دار ! جسم میں خون کا ایک لوتھڑا ایساہے کہ اگر وہ ٹھیک ہو جائے توسارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔اور وہ ہے دل۔‘‘[1] اس حدیث کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ یقینی طور پر حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔اور ان دونوں کے درمیان کچھ امور مشتبہ قسم کے ہیں جن سے بہت سارے لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔پھریہ بھی بتایا گیا گیا ہے کہ جو شخص ان مشتبہ امور سے بچ جاتا ہے وہ اپنے دین کو بچا لیتا ہے۔اور جو ان میں واقع ہوتا ہے وہ حرام میں واقع ہو جاتا ہے۔پھر دل کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کے اعضاء سے ہونے والی حرکات کی درستگی اور اس کا حرام اور مشتبہ امور سے بچنا اس کے دل کی درستگی کے مطابق ہوتا ہے۔اگر اس کا دل صحیح سالم ہو ، اس میں اللہ کی محبت ہو اور جس چیز سے وہ محبت کرتا ہے اس کی محبت کے سوا کچھ نہ ہو ، اس میں اللہ کی خشیت ہو اور اس کے دل میں اس چیز میں واقع ہونے کا خدشہ ہر وقت رہتا ہوجس کو اللہ تعالی نا پسند کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء کی حرکات درست رہتی ہیں اور اس کی وجہ سے وہ تمام حرام کاموں سے بچا رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شبہات سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ محرمات میں واقع نہ ہو جائے۔ اور اگر اس کا دل ہی فاسد ہو چکا ہو ، اس پر نفسانی خواہشات کا اور من پسند چیزوں کی محبت کا غلبہ ہو خواہ انھیں اللہ تعالی نا پسند کرتا ہو تو اس کے تمام اعضاء کی حرکات بھی فاسد ہو جاتی ہیں اور وہ گناہوں کے ارتکاب اور مشتبہ امور اور دلی خواہشات کی اتباع پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لَا یَسْتَقِیْمُ إِیْمَانُ عَبْدٍ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ قَلْبُہُ ، وَلَا یَسْتَقِیْمُ قَلْبُہُ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ لِسَانُہُ) ’’ کسی بندے کا ایمان مستقیم نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل مستقیم نہ ہو۔اور اس کا دل مستقیم نہیں ہو سکتا جب تک اس کی زبان مستقیم نہ ہو۔‘‘[2] دل ایمان کا محل ہے جی ہاں ، دل جسمانی اعضاء میں اتنا اہم عضو ہے کہ یہ ایمان کی جائے قرار اور اس کا محل ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَلٰٓـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ﴾ ’’ لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمھارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کردیا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter