Maktaba Wahhabi

450 - 492
’’ اور اگر تمھیں بدلہ لینا ہو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی تم پر زیادتی ہوئی ہو۔اور اگر برداشت کرجاؤ تو صبر کرنے والوں کیلئے یہی بات بہتر ہے۔‘‘[1] محترم حضرات ! اِس حدیث کے جو تین مفہوم ہم نے ابھی بیان کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اِس حدیث کی رو سے نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ کسی اورکو نقصان پہنچانا درست ہے۔نہ قصدا اور نہ ہی بغیر قصد کے۔نہ پہل کرتے ہوئے اور نہ ہی بدلہ لیتے ہوئے۔ہر حال میں نقصان پہنچانا حرام ہے۔ اِس حدیث کی بنیاد تین چار باتوں پر ہے۔ 1۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو۔اور اس چیز کو ناپسند کرے جو اپنے لئے نا پسند کرتا ہو۔کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ) ’’ تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘[2] یہ حدیث مسند احمد میں ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے: (لَا یَبْلُغُ عَبْدٌ حَقِیْقَۃَ الْإِیْمَانِ حَتّٰی یُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا یُحِبُّہُ لِنَفْسِہِ مِنَ الْخَیْرِ) ’’ بندہ ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ لوگوں کیلئے بھی اُسی خیر کو پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو۔‘‘[3] اور یہ ایمان کی واجب خصلتوں میں سے ایک بہت بڑی خصلت ہے۔اگر اس میں یہ خصلت نہ ہو تو اس کی وجہ سے اس کے ایمان میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: (أَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکْن مُّؤْمِنًا)’’ تم لوگوں کیلئے بھی وہی چیز پسند کیا کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو ، اِس طرح تم سچے مومن بن جاؤ گے۔‘‘[4] جبکہ ایک روایت میں(تَکُن مُّسْلِمًا)کے الفاظ ہیں۔یعنی اگر تمھارے اندر یہ صفت ہوگی تو ’’تم سچے مسلمان بن جاؤ گے۔‘‘[5] مسلمان بھائیو اور بہنو ! یہ خصلت اتنی عظیم ہے کہ اس کے دو بہت ہی اہم ثمرات ہیں:
Flag Counter